بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مورث کی حیاتی میں حصہ مانگنا


سوال

میرے شوہر کاا نتقال ہوگیا، ہمارا ایک بیٹا اورتین بیٹیاں ہیں،مرحوم شوہر کا ایک فلیٹ تھا ، جس کی قیمت ایک کروڑ تھی،دو بیٹیوں اور بیٹے  کی شادی میں  نے مرحوم کی حیاتی میں جمع پونجی سے کروائی،ایک بیٹی کنواری ہے، میرا بیٹا اور بہو بہت   زیادہ  لڑتے  تھے، ہر وقت گھر میں جھگڑا اور فساد رہتا ہے، 14  سال برداشت کرنے کے بعد اب  تین سال پہلے ان دونوں کو الگ کردیا ، اب  وہ دونوں کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں،میرے پاس رہنے کے لیے کوئی نفقہ کا انتظام نہیں تھا ، بیٹے نے الگ ہونے کے بعد  خرچہ دینے سے انکار کردیا،تب میں نے اپنے بہو سے اپنے گھر کا سونا  جو میں نے شادی کے وقت بری میں دیا تھا اس سے لے لیا،اور نان نفقہ کے واسطے میں نے یہ سونا تین سال پہلے فروخت کردیا،اور میری کنواری بیٹی بھی نوکری کرنے لگی ،اس طرح ماں اور بیٹی زندگی گزار رہے تھے،آخر کارجب  اس بیٹی کی بھی شادی کا وقت آیا ، تو  اس بیٹے نے عین شادی کے موقع پر دھمکیاں دینے شروع کردیے، اور کہا کہ میں اس وقت تک شادی پر نہیں آؤں گا،جب تک والد کے فلیٹ میں میرا حصہ مجھے نہ دو ،میں مجبوراً فلیٹ فروخت کرنے کے لیے راضی ہوگئی،بیٹے نے جلد بازی میں یہ مکان انتہائی سستے داموں (88لاکھ)میں فروخت کردیا،اچھا اس وقت بھی  کسی نے اس سونے کا ذکر نہیں  کیا جو میں نے بہو سے واپس لیا تھا،مکان میں سے 24 لاکھ مجھے ملے ، 24 لاکھ اس بیٹے کو  اور  12  ،12 لاکھ تینوں بیٹیوں کو ملے، باقی  4 لاکھ روپے  پانی کے ٹیکس میں دیے گیے،تینوں بیٹیوں نے اپنا اپنا حصہ  نہیں  لیا ، اس کو ملاکر بیٹیوں نے مجھے دو کمروں کا فلیٹ دلایا،،بیٹی کی شادی کے بعد بیٹے نے مجھے اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کیا ،اب اس مکان میں میں اکیلی رہتی ہوں،اور اپنے حصہ کی رقم سے گزر بسر کرتی ہوں،بیمار بھی ہوں  چھ ، سات ہزار کی دوائی ہر ماہ لیتی ہوں،اب بیٹا کہتا ہے کہ آپ کی زندگی میں اپنے مال میں سے میرا حصہ ادا کرو اور   اس کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ میں زندہ ہوں ، اور  مذکورہ بالا سونا کا مطالبہ کرتا ہے  ، شرعاًا ن دونوں مطالبات   میں میرا بیٹا حق بجانب ہے؟

جواب

 سوال میں مذکور  بیٹے کا  اپنی ماں کے  ساتھ رویہ اور سلوک سے متعلق جو کچھ لکھا ہے، اگر یہ واقعے کے مطابق ہے تو  یقیناً  بیٹے کا یہ رویہ   اور سلوک ناجائز  اور حرام اور  کبیرہ گناہ ہے،  جس کا خمیازہ آخرت کے علاوہ دنیا میں  بھی بھگتنا پڑتا ہے، اس پر لازم ہے کہ  اپنے اس رویہ سے توبہ کرے، والدہ  کی خدمت کرے،ان کے بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے، جیساکہ بچپن میں وہ اسکا سہارا بنی تھیں، اور مشقتیں اٹھا کر اس کو پالا تھا، اوروالدہ کی زندگی کو اپنے لیے سعادت کا باعث سمجھے۔ والدہ   سےبد سلوکی پر احادیث میں سخت وعیدیں  وارد ہوئی  ہیں ۔

      حدیث میں ہے:                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                            

"عن أبی أمامة رضی الله عنہ أن رجلًا قال: یا رسول الله! ما حق الوالدین علٰی ولدھما؟ قال: ھما جنتک أو نارک"(الترغيب والترهيب للمنذري،216/3،کتاب البر والصلۃ)     

    ترجمہ:… “حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! والدین کا اولاد کے ذمے کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں (یعنی ان کی خدمت کروگے تو جنت میں جاوٴگے، ان کی نافرمانی کروگے تو دوزخ خریدوگے)۔

”          ایک اور حدیث میں ہے:

 “عن ابن عباس رضی الله عنہما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من أصبح مطیعًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنّة وان کان واحدًا فواحدًا ومن أصبح عاصیًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النّار ان کان واحدًا فواحدًا۔ قال رجل: وان ظلماہ؟ قال: وان ظلماہ وان ظلماہ وان ظلماہ۔     (شعب الايمان، 306/10،مکتبۃ الرشد للنشر )         

ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص والدین کا فرمانبردار ہو اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک، اور جو شخص والدین کا نافرمان ہو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں، اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ: خواہ والدین اس پر ظلم کرتے ہوں؟ فرمایا: خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں۔

باقی جہاں تک سوال میں مذکور مالی معاملات کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ  زندگی  میں  اپنے  مال کا مالک آدمی خود ہوتا ہے، ورثاء کااس کے مال میں کوئی مالکانہ حق  نہیں ہوتا جس کا مطالبہ کیا جائے، لہذا سائلہ کے بیٹے کا سائلہ کی حیاتی میں  اس کے مال میں حصے کا مطالبہ کرنا شرعاً   درست نہیں،سائلہ پر اس مطالبے کو تسلیم کرنا لازمی نہیں  ہے،بلکہ اگر والدہ تنگدست اور نادار ہیں، تو ان کا نان نفقہ بھی شرعًا اس کے بیٹے کے ذمہ  ہوگا

نیز  مذکورہ  سونا  جو سائلہ نے  بری میں   دیاتھا اس  کا حکم یہ ہےکہ: اگر سائلہ نے  دیتے وقت  ہبہ(گفٹ) اور بطور تملیک دینے کی صراحت کی تھی تو  سائلہ کی بہو  اس سونےکی  مالک ہوگئی تھی ،بہو سے واپس  لینا  جائز نہیں تھا  ، اب  لینے کے بعد سائلہ پراتنا سونا یا اس کی قیمت بہو کو واپس کرنا ضروری ہے،اوراگرسائلہ نے یہ سونا صرف استعمال کرنے کے لیے  دیا تھامالک بناکر نہیں دیا تھا تواس سونے کی مالک  سائلہ ہوگی،سائلہ کی بہو مالک نہیں ہوگی اور اگر دیتے وقت کوئی صراحت نہیں تھی ،توسائلہ کے خاندان کےعرف کو دیکھا جائے گا،اگر عرف میں لوگ بری کے زیورات  ہدیہ کے طور پردیتے ہیں تو سائلہ کی بہو مالک ہوگی اور سائلہ کو یہ زیورات اپنی بہو کو واپس کرنا ضروری  ہوگا، اور اگر عرف میں بری کے زیورات  صرف استعمال  کیلئے دیےجاتے ہیں بہو کو مالک بناکر نہیں دئے جاتے  تو سائلہ  کی بہو  ان زیورات کی   مالک نہیں ہوگی،ایسی صورت میں  سائلہ کا اس سے سونا واپس لینا شرعا جائز تھا ،اوراب اس  پریہ سونا  واپس کرنا لازم نہیں  ہوگا اور اگر خاندان کا اس سلسلہ میں کوئی عرف نہیں ہے تو ظاہر کااعتبار کرتے ہوئےسائلہ  کی بہو   ان زیورات کی مالک ہوگی اور سائلہ پر اس سونے کا لوٹانا  شرعا لازم ہوگا۔

الدر المختار میں ہے:

(وحكمها ثبوت الملك للموهوب له غير لازم) فله الرجوع والفسخ۔۔۔۔۔۔۔(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل۔

(کتاب الھبۃ،جِ5/ص688:ط،سعید)

وفیہ ایضاً:

(ولو بعث إلى امرأته شيئا ولم يذكر جهة عند الدفع غير) جهة (المهر) كقوله لشمع أو حناء ثم قال إنه من المهر لم يقبل قنية لوقوعه هدية، وقال ابن عابدین:(قوله ولو بعث إلى امرأته شيئا) أي من النقدين أو العروض أو مما يؤكل قبل الزفاف أو بعد ما بنى بها نهر۔

(باب المھر،مطلب فیما یرسلہ الی الزوجۃ:ج،3/ص،152:ط،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں