بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مریحا زینب نام رکھنے کا حکم


سوال

میں نے اپنی بیٹی کا نام مُریحا زینب رکھنا ہے، اس کے معنی بتا دے اور کیا یہ نام رکھنا درست ہے؟

جواب

"مُریح "  عربی زبان کا لفظ  ہے، اس کا معنی ہے:  پر سکون ،سکون بخش ، اس کی مؤنث "مُریحہ"  ہے، لہٰذا بچی کا نام  ’’مُرِیْحَهْ"  رکھا جاسکتا ہے۔

القاموس الوحید میں ہے:

المُرِيح:(1)آرام دہ ـ(2)نفخ پیدا کر نے والی چیز۔

(باب الراء،ص: 559،ط: ادارہ اسلامیات،لاہور،کراچی)

" زینب" کے معنی ایک حسین مہک دار پودا کے ہیں، یہ صحابیات کے ناموں میں سے ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی  ایک صاحب زادی اور دو  ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کا نام " زینب"  تھا؛ اس لیے یہ نام  رکھنا  درست ہے اور باعث برکت بھی ہے، "مُریحہ زینب"، یا صرف "مُریحہ" یا صرف "زینب" نام رکھنا درست ہے، زیادہ بہتر ہے کہ کسی ایک نام پر اکتفاء کرلیا جائے،ایک نام رکھے کی صورت میں  صرف "زینب" نام رکھنا زیادہ بہتر ہے؛ کیوں کہ یہ صحابیات کے ناموں میں سے ہے۔

 صحیح  مسلم ـ میں ہے:

"عن أبي هريرة أن زينب كان اسمها برة، فقيل: تزكى نفسها. فسماها رسول الله صلى الله عليه وسلم زينب".

(الآداب، باب استحباب تغییر الاسم القبیح إلی حسن ... الخ ،6 / 173،دار الجیل بیروت)

المعجم الوسیط میں ہے:

"(الزينب) الجبان وشجر حسن المنظر طيب الرَّائحة وبه سميت الْمرأة."

(باب الزاء، ج:1، ص:402، ط: دار الفكر -بيروت)

تحفہ المودود باحکام المولود  میں ہے:

"لما كان المقصود بالاسم التعريف والتمييز وكان الاسم الواحد كافيا في ذلك كان الاقتصار عليه أولى ويجوز التسمية بأكثر من اسم واحد كما يوضع له اسم وكنية ولقب."

(تحفة المودود بأحكام المولود: ص: 144، ط: مكتبة دار البيان)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"ويجوز التسمية بأكثر من اسم واحد، والاقتصار على اسم واحد أولى، لفعله صلّى الله عليه وسلم بأولاده".

(الفقه الإسلامی و ادلته،ج:4،ص:2753ط: دار الفکر)

مارواه الإمام أبو داود:

"عن أبي الدرداء رضي اللّٰہ عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنکم تدعون یوم القیامة بأسماء کم وأسماء آباء کم فأحسنوا أسماء کم."

(باب في تغییر الأسماء، ج:4، ص:442، ط:دار الکتاب العربي بیروت)

ترجمہ:"حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اوراپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤگے لہٰذا اچھے نام رکھاکرو۔"

وفي الفتاوی الهندیه:

"وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه و سلم و لا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط."

(کتاب الکراهیة، الباب الثاني والعشرون في تسمية الأولاد وكناهم والعقيقة، ج:5، ص:362، ط:دار الفکر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں