بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1446ھ 04 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مرغی کو بے ہوش کر کے ذبح کرنا


سوال

مرغی کو اسٹننگ کے عمل سے گزار کر ذبح کر ناشر عا جائز ہے یا نہیں ؟

جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مرغی کو اولاً الیکٹرک مشین کے ذریعے شارٹ دے کر نیم بے ہوش کیا جاتا ہے، پھر ذبح کیا جاتا ہے، آیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟ نیز اسی چکن کو بسا اوقات ایک گیس کے ذریعے سے بھی بالکل بے ہوش کر دیا جاتا ہے، ہم نے ایک وزٹ کیا تو بعض چکن ایسی بھی تھیں جو بالکل مر چکی تھیں، حتی کہ ذبح سے ان کا خون بھی نہیں نکلا۔

جو چکن بے ہوش ہوتی ہیں انہیں اگر چہ مسلمان ذبح کرتے ہیں، مگر مندرجہ بالا صورتوں کا کیا حکم ہے؟

یہ یاد رہے کہ:

1۔ کینیڈا میں قانونی طور پر مسلم اور یہود کو اسٹننگ یا گیس کے بغیر ذبح کرنے کی مکمل اجازت ہے، اس کے باوجود کچھ مفتیانِ کرام چکن پر ظلم کرنے کو جائز کہہ رہے ہیں۔

2۔ اکثر سلاٹر ہاؤس غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہیں اور وہ لوگ چکن کی لائن کی سپیڈ کو تیز کرنے کے لیے اسٹنگ اور گیس کے ذریعے بے ہوش کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور ان کا مقصد صرف منافع کا حصول ہے۔

جواب

واضح رہے  کہاحادیث مبارکہ میں جانور کو ذبح کرتے وقت ایذاء  اور تکلیف دینے سے منع فرمایا گیا ہے اور جانور کو بے ہوش کر کے ذبح کرنا شرعی طریقہ نہیں ہے، اس لیے اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے، اگر بے ہوش کرتے وقت ذبح کرنے سے پہلے جانور کی روح نکل جائے تو جانور حرام ہوگا، لیکن اگر بے ہوش ہونے کے بعد اس کے اندر جان باقی رہے اور اسےشرائط کے ساتھ ذبح   کردیا گیا تو جانور حرام نہیں ہو گا۔نیزشرعی نقطہ نظرسےذبیحہ کے حلال ہونے کے لئے تین شرطیں ہیں:

1.ذبح کرنے والے کا مسلمان یا کتابی  ہونا۔

2.ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا۔

3.شرعی طریقہ پرچاررگوں ( حلقوم ، سانس کی نالی اور خون کی دورگیں) میں  سےکم ازکم تین رگوں کاکٹنا۔

لہذا اگر  مرغی کو بے ہوش کر کے ذبح کیا جائے، ذبح کرنے والا مسلمان یا کتابی ہو اور وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے اور چھری پھیرتے وقت مرغی میں جان ہو تو وہ مرغی حلال ہو گی،  گوشت کھانا بھی درست ہو گا، تاہم اس عمل میں چوں کہ جانور کو ایذاء اور تکلیف  ہے اس  وجہ سے  مذکورہ طریقہ سے ذبح کرنے میں کراہت ہو گی، اس لیے جانور کو ذبح سے پہلے بے ہوش کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اور اگر اس بے ہوش مرغی  کو مسلمان اپنے ہاتھوں سے ذبح نہ کرتا ہو، مشین سے ذبح کیا جاتا ہو تو ایسی صورت میں وہ مرغی حلال نہیں ہو گی، اسی طرح  جو مرغی ذبح کرنے سے پہلے ہی مر  جاتی  ہو وہ بھی  حلال نہیں ہو گی۔

بدائع الصنائع ميں هے:

"(وأما) شرائط ركن الذكاة فأنواع ... (ومنها) أن يكون مسلما."

(كتاب الذبائح والصيود ، فصل في بيان شرط حل الأكل في الحيوان المأكول جلد : 5 ، صفحه : 45 ، طبع : دارالكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"‌ثم ‌التسمية ‌في ‌ذكاة الاختيار يشترط أن تكون عند الذبح قاصدا التسمية على الذبيحة."

(كتاب الذبائح ، ما يقوله عند الذبح ، جلد : 8 ، صفحه : 192 ، طبع : دار الكتاب الاسلامي)

امداد الاحکام میں ہے:

"السوال:

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ غیر قوموں کو مسلمانوں پر ایک بڑا اعتراض گاؤ کُشی، نیز دیگر حلال جانوروں کے متعلق ہے کہ اس کے ذبح میں بلاوجہ ایک جاندار کی ایذا اور تکلیف ہوتی ہے، جو انسانی اخلاق کے خلاف ہے تو کیا اگر اس کے دفعیہ کے لیے اگر کوئی صورت نکالیں اور جانوروں کو کسی دوا وغیرہ سے بے ہوش کرکے ذبح کریں تو آیا جانور کو کسی بے ہوشی لانے والی دوا سے بے ہوش کرنا اور بے ہوشی کی حالت میں ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے یا نہیں؟ مدلّل جواب باصواب تحریر کریں۔ فقط والسلام   احقر ابراہیم ابن یوسف سوجھ بکس ۱۷۳       رنگون .

الجواب:

غیرقوموں کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے۔ تجربہ اور اقوالِ اطبّاء اس پر شاہد ہیں کہ ذبح میں جانور کو بنسبت جان کی بدون ذبح کے بہت کم تکلیف ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ غیر قوم ذرا ذرا سی بات پر انسان کو قتل سے تو روکتے نہیں اور جانور پر اتنا رحم! یہ کون سا قاعدہ ہے۔ پس مخالفین کے اعتراض سے متاثر ہونا اور اس سے متاثر ہوکر جانور کو ذبح سے پہلے بے ہوش کرنا جائز نہیں۔ یہ جواب تو اس صورت میں ہے جب کہ جانور کو دوا سونگھا کر بے ہوش کیا جائے اور اگر کھانے پینے کی دوا دے کر بے ہوش کیا جاوے تو اس میں دو گناہ ہیں: ایک تأثر من اعتراض المخالفین کا گناہ، دوسرے جانور کو مسکر و مضر کے کھلانے پلانے کا گناہ۔ 

قال في الدر: "و حرم الانتفاع بھا ولو سقی بھا دوابّ إلی أن قال: ویحرم أکل النبج والحشیشة  والأفیون۔ اھ أي القدر المسکر منها."(ج:5 ،ص: 453)

اور اگر بے ہوش کرکے کسی نے ذبح کردیا تو ذبیحہ حلال ہوگا، جب کہ شرائطِ ذبح بتمامہا موجود ہوں، مگر کراہت سے خالی نہيں اور اس کا گوشت کھانا جائز ہوگا۔ لیکن ایسے بے ہوش کردہ گائے یا بکری وغیرہ ذبح کرنے سے قربانی کے ادا اور صحیح ہونے میں تامل ہے. .. الخ ۔ حرّرہ الاحقر ظفراحمد عفا اللہ عنہ     از تھانہ بھون ، خانقاہ امدادیہ"

( کتاب الصید والذبائح ، جلد : 4 ، صفحہ :  229 ، طبع : مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101591

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں