بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرغی کو ذبح کے بعد آلائش سمیت پانی میں ڈالنا


سوال

اس ذبیحہ کا کیا حکم ہے جس کو ذبح  کرنے کے بعد آلائش نکالنے سے پہلے اس کو پانی میں ڈالدیا جائے، یا پانی میں نہ ڈالیں ،بلکہ اس کو کسی مشین میں ڈالدیا جائے اور اس کے اندر پانی ہو، مثلا :"بروسٹ"  اس کے لیے بعض لوگ مرغی ذبح کرکے آلائش نکالے بغیر پروں کو نوچنے والے مشین مین ڈالدیتے ہیں اور ا س مشین میں پانی بھی ہوتا ہے ،تو کیا اس سے ذبیحہ حرام یا مکروہ ہوجاتا ہے یا نہیں ؟اگر حرام ہوجاتا ہے تو  پھر ان بروسٹوں کے کھانے کا کیا حکم ے ؟ اور جس دکان والے کے بارے میں پتہ نہ ہوکہ یہ کس طریقے کار پر عمل پیرا ہے تو ایسے دکان سے بروسٹ خرید کر  کھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  ذبح کے بعد الائش نکالے بغیر مرغی کو اگر ایسے گرم پانی میں تھوڑی دیر کی لیے ڈبو دیا جائے کہ اس کا درجہ حرارت جوش اور غلیان تک پہنچاہوا نہ ہو ( پانی کے ابال میں شدت نہ آئی ہو)اور گرم پانی کا اثر صرف کھال تک محدود رہے تاکہ پَر آسانی سے نکالے جاسکیں اور گوشت تک اس کی گرمائش نہ پہنچنے پائےتو ایسی صورت میں مرغی کا کھانا بلا کراہت جائز ہے ۔لیکن اگر پانی ابلنے کی حد تک گرم ہو اور اس پانی کے اندر مرغی اتنی دیر تک پڑی رہے کہ اس کے نتیجے میں نجاست گوشت کے اندر سرایت کرجانے کا غالب گمان ہو جائے تو ایسی مرغی کا کھانا جائز نہیں ۔ماہرین کےمطابق  گرم پانی تقریباً 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم ہواوردوڈھائی منٹ سے زیادہ مرغی کو اس میں نہ رکھاجاتاہوتواس کی اجازت ہے، ایسی صورت میں اس مرغی کااستعمال بلاکراہت جائز ہوگا۔ نیز جس دکان والے کا طریقہ کار معلوم نہ ہوسکے اسکے ہاں سے بروسٹ کھانے میں احتیاط بہتر ہے۔

الدر المختار میں ہے:

ويطهر۔۔۔۔ دجاجة ملقاة حالة على الماء للنتف قبل شقها فتح۔۔۔ وفی الرد:  قال في الفتح : إنها لا تطهر أبدا لكن على قول أبي يوسف تطهر ، والعلة - والله أعلم - تشربها النجاسة بواسطة الغليان ، وعليه اشتهر أن اللحم السميط بمصر نجس ، لكن العلة المذكورة لا تثبت ما لم يمكث اللحم بعد الغليان زمانا يقع في مثله التشرب والدخول في باطن اللحم ، وكل منهما غير محقق في السميط حيث لا يصل إلى حد الغليان ، ولا يترك فيه إلا مقدار ما تصل الحرارة إلى ظاهر الجلد لتنحل مسام الصوف ، بل لو ترك يمنع انقلاع الشعر۔

(ردالمحتار على الدر المختار كتاب الطهارة باب الانجاس ، مطلب في تطهير الدهن، 334/1، سعید)

فتح القدیر میں ہے:

ولو ألقیت دجاجة حال الغلیان في الماء قبل أن یشق بطنہا لتُنتَفَ أوکَرِشٌ قبل الغسل لایطہرُ أبدًا، لکن علی قول أبي یوسف یجب أن یُطہَّر علی قانون ما تقدم في اللحم، قلت: وہو - سبحانہ أعلم - ہو معلل بتشربہما النجاسةَ المتخللة بواسطة الغلیان، وعلی ہٰذا اشتہر أن اللحم السمیط بمصر نجس لا یطہَر، لکن العلة المذکورة لا تثبت حتی یصل الماء إلی حد الغلیان، ویمکث فیہ اللحم بعد ذٰلک زمانًا یقع في مثلہ التشرب والدخول في باطن اللحم، وکل من الأمرین غیر متحقق في السمیط الواقع، حیث لا یصل الماء إلی حد الغلیان، ولا یترک فیہ إلا مقدار مَا تَصِلُ الحرارة إلی سطح الجلد، فتنحل مسام السطح من الصوف بل ذلک الترک یمنع من وجودہ انقلاع الشعر، فالأولی في السمیط أن یطہر بالغَسل ثلاثا لِتَنَجُّسِ سطح الجلد بذلک الماء؛ فإنہم لا یحترسون فیہ من المنجس، وقد قال شرف الأئمة بہذا في الدجاجة والکَرِشِ، والسمیطُ مثلہما۔

(فتح القدیر / باب الأنجاس وتطہیرہا، 210/1، دار الفکر)

لو ألقيت دجاجة حال غليان الماء قبل أن يشق بطنها لتنتف أو كرش قيل أن يغسل إن وصل الماء إلى حد الغليان ومكثت فيه بعد ريشها فتطهر بالغسل وتمويه الحديد بعد سقيه بالنجس مرات ويتجه مرة لحرقه وقبل التمويه يطهر ظاهرها بالغسل والتمويه يطهر باطنها عند أي يوسف وعليه الفتوى۔

(حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح ، 160/1، دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں