بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرغی (کے گوشت) کے کاروبار سے متعلق چند مسائل


سوال

میری مرغیوں کی دکان ہے،  مجھے اس كے مسائل کے بارے میں آگاہ فرما دیں!

جواب

مرغیوں کا کاروبار کرنا  شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ ان کی خوراک کا مناسب انتظام کیاجاتاہو، شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں۔ نیز ان کی خوراک میں از خود کوئی نجس یا حرام چیز شامل نہ کرے۔

اس کے علاوہ مرغی ذبح کرنے سے متعلق چند مسائل یہ ہیں:

مرغی ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنے کا خاص التزام کیا جائے ، یاد ہوتے ہوئے ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا تو مرغی کا گوشت حرام  ہوجاتا ہے۔

محض  بسم اللہ کہہ کر ذبح کرنے سے بھی جانور حلال ہوجائے گا۔ البتہ بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا بہتر ہے۔

نیز ذبح کرتے وقت بلند آواز سے "بسم اللہ اللہ اکبر"  کہہ کر ذبح کرنا ضروری ہے، اور اتنی بلند آواز سے کہنا ضروری ہے جس سے اپنی آواز اپنے کانوں تک سنائی دے، صرف دل ہی دل میں کہہ دیا اور ہونٹ بھی نہ ہلے تو یہ کہنا نہیں، خیال کرنا ہے، جو جانور کے حلال ہونے کے  لیے کافی نہیں ہے۔ محض دل میں سوچ لیا اور زبان سے ادا نہیں کیا تو  یہ کہنا نہیں، بلکہ خیال کرنا ہے، جو جانور کے حلال ہونے کے  لیے کافی نہیں ہے۔ ذبح کرنے والے کے ہونٹ سے معلوم ہو کہ وہ بسم اللہ پڑھ رہا ہے تو وہ جانور کھانا حلال ہے۔ 

پاک یا ناپاک  چھری سے اللہ کانام لے کر ذبح کیا جائے تو وہ مرغی حلال ہو جائے گی اور اسے کھانا جائز ہے،  البتہ  چھری ناپاک ہو تو  ذبح کرنے سے پہلے اسے دھو کر پاک کرلینا بہتر ہے۔

 مرغی کو ذبح کرنے کے بعد اس میں موجود گندگی اور ناپاکی کو دور کر کے گرم پانی میں ڈال کر پر نکالے جائیں تو ایسے گوشت کو کھانا بلا شبہ درست ہے،اور ناپاکی کو دور کرنے سے پہلے گرم پانی میں ڈال کر اس کے پر نکالے جائیں تو اس کی دوصورتیں ہیں ۔

(۱) پانی گرم ہو جانے کے بعد اس میں مرغی ڈبو کر فوراً باہر نکال لی جائے، مرغی اس میں رکھ کر پانی کو اور جوش نہ دیا جائے تو اس صورت میں چوں کہ گوشت تک ناپاکی کا اثر نہیں پہنچتا ہے، صرف پر نکل جاتے ہیں ، تو اس صورت میں تین مرتبہ دھولینے سے مرغی پاک ہوجائے گی ۔

(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ مرغی کو گرم پانی میں ڈال کر پانی کو ابالا جائے  یا بہت زیادہ گرم پانی میں کافی دیر مرغی کو چھوڑ دیا جائے تو  چوں کہ اس صورت میں پیٹ کی نجاست کا اثر گرمی کے اثر کی وجہ سے گوشت تک پہونچ جاتا ہے؛ لہٰذا گوشت بھی ناپاک ہو جائے گا؛ اس  لیے ایسے گرم پانی میں ڈال کر پر نکالی ہوئی مرغی کا گوشت کھانا جائز نہیں ۔(مستفاد: فتاوی رحیمیہ، جلد ۴،  ص ۶۱،   ناشر : دار الاشاعت اردو بازار کراچی )

 باقی سائل کو  اس متعلق اگر  کسی   خاص مسئلے کے بارے میں آگاہی مطلوب ہو تو اس کے بارے میں سوال لکھ کر ارسال فرما سکتے ہیں۔

شامی میں ہے:

"(قوله: وأما للاستئناس فمباح) قال في المجتبى رامزًا: لا بأس بحبس الطيور والدجاج في بيته، ولكن يعلفها وهو خير من إرسالها في السكك اهـ وفي القنية رامزًا: حبس بلبلًا في القفص وعلفها لايجوز اهـ".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 401)،ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(ومنها:) التسمية حالة الذكاة عندنا أي اسم كان، وسواء قرن بالاسم الصفة بأن قال: الله أكبر، الله أعظم، الله أجل، الله الرحمن، الله الرحيم، ونحو ذلك، أو لم يقرن بأن قال: الله، أو الرحمن، أو الرحيم، أو غير ذلك، وكذا التهليل والتحميد والتسبيح وسواء كان جاهلاً بالتسمية المعهودة أو عالماً، وسواء كانت التسمية بالعربية أو بالفارسية أو أي لسان كان، وسواء كان لايحسن العربية  أو يحسنها، كذا روى بشر عن أبي يوسف رحمه الله تعالى. ولو أن رجلاً سمى على الذبيحة بالرومية أو أو بالفارسية وهو يحسن العربية أو لايحسنها أجزأه ذلك عن التسمية".

(ج: 5، ص: 169، کتاب الذبائح، ط: سعید)

حاشیۂ طحطاوی میں ہے:

"وعلى هذا الدجاج المغلي قبل إخراج أمعائها وأما وضعها بقدر انحلال المسام لنتف ريشها فتطهر بالغسل.

قوله: "وعلى هذا الدجاج الخ" يعني لو ألقيت دجاجة حال غليان الماء قبل أن يشق بطنها لتنتف أو كرش قيل أن يغسل إن وصل الماء إلى حد الغليان ومكثت فيه بعد ذلك زمانا يقع في مثله التشرب والدخول في باطن اللحم لا تطهر أبدا إلا عند أبي يوسف كما مر في اللحم وان لم يصل الماء إلى حد الغليان أو لم تترك فيه إلا مقدار ما تصل الحرارة إلى سطح الجلد لإنحلال مسام السطح عن الريش والصوف تطهر بالغسل ثلاثا كما حققه الكمال."

(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (1 / 160)،باب الا نجاس،  الناشر: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

في الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 299):

"(وتارك تسمية عمدًا) خلافًا للشافعي (فإن) (تركها ناسيًا) (حل) خلافًا لمالك.

(قوله: و تارك تسمية عمدًا) بالجر عطفًا على وثني: أي و لاتحلّ ذبيحة من تعمّد ترك التسمية مسلمًا أو كتابيًّا لنص القرآن و لانعقاد الإجماع ممن قبل الشافعي على ذلك."

شامی میں ہے:

"وكذا دجاجة ملقاة حالة غلي الماء للنتف قبل شقها فتح. "

(قوله: وكذا دجاجة إلخ) قال في الفتح: إنها لا تطهر أبدا لكن على قول أبي يوسف تطهر، والعلة - والله أعلم - تشربها النجاسة بواسطة الغليان، وعليه اشتهر أن اللحم السميط بمصر نجس، لكن العلة المذكورة لا تثبت ما لم يمكث اللحم بعد الغليان زمانا يقع في مثله التشرب والدخول في باطن اللحم، وكل منهما غير محقق في السميط حيث لا يصل إلى حد الغليان، ولا يترك فيه إلا مقدار ما تصل الحرارة إلى ظاهر الجلد لتنحل مسام الصوف، بل لو ترك يمنع انقلاع الشعر؛ فالأولى في السميط أن يطهر بالغسل ثلاثا فإنهم لايتحرسون فيه عن النجس، وقد قال شرف الأئمة بهذا في الدجاجة والكرش والسميط اهـ وأقره في البحر."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 334)، باب الأنجاس، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں