بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرغ کے آلائش وغیرہ نکالنے سے قبل گرم پانی میں ڈالنے کا حکم


سوال

آلائش نکالنے سے قبل مرغ کو گرم پانی میں ڈالنا اور آگ میں تپانا کیسا ہے؟  اس بحث کے متعلق شرح منظومہ ابن وہبان میں کچھ تذکرہ ہے ، اگر وہ عبارت بطور حوالہ پیش فرمائیں تو زیادہ اطمینان کا باعث بنے گا۔

جواب

واضح رہے کہ  ذبح کے بعد الائش نکالے بغیر مرغی کو اگر ایسے گرم پانی میں تھوڑی دیر کے لیے ڈبو دیا جائے کہ اس کا درجہ حرارت جوش اور غلیان تک پہنچاہوا نہ ہو ( پانی کے ابال میں شدت نہ آئی ہو)اور گرم پانی کا اثر صرف کھال تک محدود رہے تاکہ پَر آسانی سے نکالے جاسکیں اور گوشت تک اس کی گرمائش نہ پہنچنے پائےتو ایسی صورت میں مرغی کا کھانا بلا کراہت جائز ہے ۔لیکن اگر پانی ابلنے کی حد تک گرم ہو اور اس پانی کے اندر مرغی اتنی دیر تک پڑی رہے کہ اس کے نتیجے میں نجاست گوشت کے اندر سرایت کرجانے کا غالب گمان ہو جائے تو ایسی مرغی کا کھانا جائز نہیں ۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"ذكر أبو جعفر الطحاوي قال: سمعت أبا حازم القاضي يحدث عن سويد بن سعيد عن علي بن مسهر قال: كنت عند أبي حنيفة رضي الله عنه فأتاه ابن المبارك بهيئة خراساني، فسأله عن رجل ‌نصب ‌له ‌قدرا فيها لحم على النار فمر طير فوقع فيها فمات، فقال أبو حنيفة لأصحابه: ماذا ترون؟ فذكروا له عن ابن عباس أن اللحم يؤكل بعدما يغسل ويهراق المرق، فقال أبو حنيفة: بهذا نقول ولكن هو عندنا على شريطة، فإن كان وقع فيها في حال سكونها فكما في هذه الرواية، وإن وقع فيها في حال غليانها لم يؤكل اللحم ولا المرق. فقال له ابن المبارك: ولم ذلك؟ فقال: لأنه إذا سقط فيها في حال غليانها فمات فقد داخلت الميتة اللحم، وإذا وقع في حال سكونها فمات فإن الميتة وسخت اللحم."

(‌‌باب القدر يقع فيها الطير فيموت، ج:1، ص:145، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويطهر۔۔۔۔ دجاجة ملقاة حالة على الماء للنتف قبل شقها فتح۔۔۔ وفی الرد:  قال في الفتح : إنها لا تطهر أبدا لكن على قول أبي يوسف تطهر ، والعلة - والله أعلم - تشربها النجاسة بواسطة الغليان ، وعليه اشتهر أن اللحم السميط بمصر نجس ، لكن العلة المذكورة لا تثبت ما لم يمكث اللحم بعد الغليان زمانا يقع في مثله التشرب والدخول في باطن اللحم ، وكل منهما غير محقق في السميط حيث لا يصل إلى حد الغليان ، ولا يترك فيه إلا مقدار ما تصل الحرارة إلى ظاهر الجلد لتنحل مسام الصوف ، بل لو ترك يمنع انقلاع الشعر."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، مطلب في تطهير الدهن والعسل، ج:1، ص:334، ط:سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"ولو ألقیت دجاجة حال الغلیان في الماء قبل أن یشق بطنہا لتُنتَفَ أوکَرِشٌ قبل الغسل لایطہرُ أبدًا، لکن علی قول أبي یوسف یجب أن یُطہَّر علی قانون ما تقدم في اللحم، قلت: وہو - سبحانہ أعلم - ہو معلل بتشربہما النجاسةَ المتخللة بواسطة الغلیان، وعلی ہٰذا اشتہر أن اللحم السمیط بمصر نجس لا یطہَر، لکن العلة المذکورة لا تثبت حتی یصل الماء إلی حد الغلیان، ویمکث فیہ اللحم بعد ذٰلک زمانًا یقع في مثلہ التشرب والدخول في باطن اللحم، وکل من الأمرین غیر متحقق في السمیط الواقع، حیث لا یصل الماء إلی حد الغلیان، ولا یترک فیہ إلا مقدار مَا تَصِلُ الحرارة إلی سطح الجلد، فتنحل مسام السطح من الصوف بل ذلک الترک یمنع من وجودہ انقلاع الشعر، فالأولی في السمیط أن یطہر بالغَسل ثلاثا لِتَنَجُّسِ سطح الجلد بذلک الماء؛ فإنہم لا یحترسون فیہ من المنجس، وقد قال شرف الأئمة بہذا في الدجاجة والکَرِشِ، والسمیطُ مثلہما."

(كتاب الطهارات، باب الأنجاس وتطهيرها، ج:1، ص:210، ط:دار الفکر)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"لو ألقيت دجاجة حال غليان الماء قبل أن يشق بطنها لتنتف أو كرش قيل أن يغسل إن وصل الماء إلى حد الغليان ومكثت فيه بعد ريشها فتطهر بالغسل وتمويه الحديد بعد سقيه بالنجس مرات ويتجه مرة لحرقه وقبل التمويه يطهر ظاهرها بالغسل والتمويه يطهر باطنها عند أي يوسف وعليه الفتوى."

(كتاب الطهارة، ‌‌باب الأنجاس والطهارة عنها، ج:1، ص:160، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100705

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں