بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جہاں قبروں میں پانی جانے کا اندیشہ ہو وہاں مردوں کی تدفین کا حکم


سوال

صفورہ گوٹھ میں ایک ہمارا قبرستان ہے ،اس میں بارشوں کے وقت میں بہت پانی بھرجاتا ہے اور ہمیں یہ بھی یقیناً محسوس ہوتا ہے کہ تمام قبریں پانی میں بھر چکی ہوں  گی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسی جگہ مردوں کو دفن کرنا درست ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ قبرستان جہاں زمین کے نرم ہونے کی وجہ سے قبروں میں پانی جانے کا غالب گمان ہوتا ہے ،اگر اس کے علاوہ کوئی اورجگہ دستیاب نہ ہو تومذکورہ قبرستان میں مردوں کا دفن کرنا درست ہے ، البتہ قبروں کو پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے اصل قبر  کو چھوڑ کر یعنی جتنے حصے میں میت دفن ہے، اسے کچا رکھا جائے اور بقیہ حصہ کے اردگرد پتھر، یا بلاک وغیرہ سے منڈیر نما بنا دیا جائے یا اردگر زمین پر پختہ فرش کردیا جائے؛ تاکہ قبر میں پانی دائیں بائیں سے پانی داخل نہ ہوسکے ، یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے ، ، لیکن اس میں بھی اس بات کا خیال ضروری ہےاس کے لیے سادہ پتھر ، بلاک استعمال کیا جائے زیب زینت والا کوئی پتھر نہ ہو۔ نیز آگ پر پکی ہوئی اینٹیں بھی نہ لگائی جائیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ويسوى اللبن والقصب لا الآجر) المطبوخ والخشب لو حوله، أما فوقه فلا يكره ابن مالك..(وجاز) ذلك حوله (بأرض رخوة) كالتابوت

(قوله لا الآجر) بمد الهمزة والتشديد أشهر من التخفيف مصباح. وقوله المطبوخ صفة كاشفة. قال في البدائع: لأنه يستعمل للزينة ولا حاجة للميت إليها ولأنه مما مسته النار، فيكره أن يجعل على الميت تفاؤلا كما يكره أن يتبع قبره بنار تفاؤلا (قوله: لو حوله إلخ) قال في الحلية: وكرهوا الآجر وألواح الخشب. وقال الإمام التمرتاشي: هذا إذا كان حول الميت، فلو فوقه لا يكره لأنه يكون عصمة من السبع. وقال مشايخ بخارى: لا يكره الآجر في بلدتنا للحاجة إليه لضعف الأراضي".

(کتاب الصلاۃ،مطلب فی دفن المیت،ج:2،ص:236،سعید)

النہر الفائق میں ہے :

"وفي (الخلاصة):ويكره الآجر في اللحد إذا كان يلي الميت أما فيما وراء ذلك فلا بأس به وهذا يقتضي أن بناء القبر دون اللحد لا بأس به هذا إن لم تكن الأرض رخوة فإن كانت فلا بأس بالآجر والخشب حوله".

(کتاب الصلاۃ،فصل فی الصلاۃ علی المیت،ج:1،ص:403،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں