بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مُردوں کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کرنا


سوال

مُردوں کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کروانا کیسا ہے؟

جواب

قرآن کا پڑھنا خیر وبرکت کا ذریعہ ہے، اور اس کے پڑھنے کا ثواب لوگوں کو پہنچتا ہے، لہذا ایصالِ ثواب  یا برکت کے حصول کے لیے  قرآن کی تلاوت تو بلاشبہ دُرست ہے، لیکن اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میت  کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔

دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا :" بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!"

سوم:… یہ کہ ایصال ثواب کے لیے کی گئی   قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لیے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لیے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے لیے جمع کرنا مکروہ ہے، اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ تلاوتِ قرآن پر اجرت ہے جو کہ ناجائز ہے۔

چہارم:…   کسی دن، وقت یا کیفیت کو لازمی نہ سمجھا جائے۔

اور جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو وہاں اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگا،  اور اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی جائے، اور   اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ اگر اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں یا  وہاں موجود لوگ مل کر قرآن خوانی کرلیں، یا اگر کوئی پڑھنے والا دست یاب نہ ہو تو جو پڑھنا جانتے ہیں ان سے پڑھوا لیا جائے  اور اس پر اجرت لی، دی نہ جائے اور نہ ہی اس کے عوض میں دعوت کا التزام کیا جائے  تو  یہ جائز ہے۔

ہدایہ میں ہے:

"الأصل في هذا الباب أن الإنسان له ‌أن ‌يجعل ‌ثواب ‌عمله ‌لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها عند أهل السنة والجماعة لما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عن أمته ممن أقر بوحدانية الله تعالى وشهد له بالبلاغ جعل تضحية إحدى الشاتين لأمته."

(باب الحج عن الغير، ج:1، ص:178، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما عند أهل السنة والجماعة) لا يراد به أن الخلاف بيننا وبينهم في أن له ذلك أو ليس له كما هو ظاهره، بل في أنه ينجعل بالجعل أولا بل يلغو جعله (قوله أو غيرها) كتلاوة القرآن والأذكار (قوله عند أهل السنة والجماعة) ليس المراد أن المخالف لما ذكر خارج عن أهل السنة والجماعة، فإن مالكا والشافعي - رضي الله عنهما - لا يقولان بوصول العبادات البدنية المحضة كالصلاة والتلاوة بل غيرها كالصدقة والحج، بل المراد أن أصحابنا لهم كمال الاتباع والتمسك ما ليس لغيرهم، فعبر عنهم باسم أهل السنة فكأنه قال عند أصحابنا غير أن لهم وصفا عبر عنهم به."

(کتاب الحج، ج:3، ص:142، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں