بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مردوں کا سننا اور پہچاننا / قبروں کو سنگ مرمر سے تعمیر کرنا


سوال

1: گاؤں میں یہ بات مشہور ہوچکی ہے کہ جب قبروں میں کوئی آدمی جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ مردہ اس کو پہچانتا ہے اور اس کی باتیں سنتا ہے، اس کی راہ نمائی فرمائیں۔

2: قبروں کو بنانا اور سنگ مرمر سے اس کی تعمیر کرنا کیسا ہے؟

جواب

1۔۔ قبروں میں میت کے سننے اور نہ سننے  کے  مسئلہ میں  دو پہلو ہیں : ایک   انبیاءِ کرام  علیہم السلام کا  سماع (سننا) اور  ان کی حیات،  اور دوسرا عام لوگوں کا سماع(سننا)۔

  •   انبیاءِ  کرام علیہم الصلاۃ و السلام کا اپنی قبروں میں زندہ ہونا اور سننا جمہور امّت کا اجماعی عقیدہ ہے،  انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبورِ مبارکہ میں حیات ہیں،ان کی وفات کے بعد  ان کی حیات  (جو دنیاوی حیات کے مماثل، بلکہ دنیاوی حیات سے بھی بڑھ کر ہے) اور سماع کا ثبوت جمہور  امّت  (بشمول ائمہ اربعہ رحمہم اللہ ) سے ثابت ہے۔
  • عام مردوں کے قبروں میں سننے  یا نہ سننے سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے  دور  سے ہی دو آراء ہیں ،  دونوں طرح کے اقوال ثابت ہیں،   ہمارے اکابرین کے نزدیک  راجح بات یہ ہے کہ  احادیثِ  مبارکہ  میں جن مواقع پر مردوں کے سننے کا ذکر آیا ہے، ان مواقع پر تو مردوں کا سننا یقینی طور پر ثابت ہے، اس کے علاوہ احوال میں بھی مردے  قبروں  میں سن  سکتے  ہیں،      لیکن یہ ثابت نہیں کہ ہر حال میں ہر شخص کے کلام کو ضرور سنتے ہیں۔

 نیز مردے کا سلام کا جواب دینا ، مانوس ہونا، اور قبر پر آنے والے کو پہچاننا بھی جمہور علماء کے ہاں ثابت ہے۔

فتاویٰ محمودیہ  میں ہے :

’’یہاں تین چیزیں غور طلب ہیں: ایک اسماع، دوم استماع، سوم سماع۔

”اسماع“ (سنانا) کی نفی صراحۃً کلام اللہ شریف میں مذکور ہے:  "إِنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی" اور "وما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِيْ الْقُبُوْرِ" یعنی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود مردوں کو نہیں سنا سکتے، تابدیگراں چہ رسد۔

”استماع“ کا حاصل یہ ہے کہ مردے کان لگا کر خود کسی کی بات سنیں۔ جب جسم سے روح جدا ہو جائے، تو یہ جسم کا کان نہیں سن سکتا، کیوں کہ اصل ادراک کرنے والی چیز روح ہے اور قوتِ سامعہ اس کے لیے آلۂ ادراک ہے، جب روح نے اس جسم کو اور اس جسم میں لگے ہوئے آلات کو ترک کردیا، تو اس کے لیے یہ آلات کار آمد نہیں ہیں۔ جس طرح میت قوتِ باصرہ، لامسہ، باطشہ وغیرہ سے کام نہیں لے سکتی، اسی طرح قوتِ سامعہ سے بھی کام نہیں لے سکتی، وہٰذا ظاہر لا یخفٰی۔

”سماع“  کا حاصل یہ ہے کہ کوئی خارجی آواز اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے میت کو ادراک کرادیں،  جس میں نہ صاحبِ صوت کو دخل ہو، نہ میت کو، تو یہ بالکل ممکن ہے، حق تعالیٰ کی قدرت سے خارج نہیں، اس کے لیے شواہدِ کثیرہ موجود ہیں۔

حدیث شریف میں ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھ کر ساتھی لوٹتے ہیں تو: ’’إنه لیسمع قرع نعالهم‘‘۔ اس میں نہ میت کے کان لگانے اور اختیار کو دخل ہے، نہ اصحابِ نعال کے اِسماع اور میت تک آواز پہنچانے کا دخل ہے، اس کے باوجود سماع(سننا) ثابت ہے۔قبرستان میں پہنچ کر سلام کرنا مسنون ہے، اتنی کثیر مٹی کے اندر مدفون میت تک اس معمولی آواز کا پہنچا دینا صاحبِ آواز کے قابو سے باہر ہے، اس کے باوجود سماع(سننا) ثابت ہے، إلٰی غیر ذٰلک من الروایات۔

عالمِ برزخ کو عالم مشاہدہ پر قیاس کرکے محض عقلی طور پر کوئی قطعی بات ثابت کرنا بھی مشکل ہے،لأن قیاس الغائب علی الشاهد لا یجوز کما صرح به الرازي إمام المتکلمین في مواضع لاتحصٰی،جن روایات سے نفی معلوم ہوتی ہے، وہاں استماع کی نفی ہے، نہ کہ سماع کی۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔‘‘

(فتاویٰ محمودیہ: 1 /553، ط: جامعہ فاروقیہ)

 شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبورللسيوطي میں ہے:

"أخرج إبن أبي الدنيا في كتاب القبور عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من رجل يزور قبر أخيه ويجلس عنده إلا إستأنس ورد عليه حتى يقوم. وأخرج أيضا والبيهقي في الشعب عن أبي هريرة رضي الله عنه قال إذا مر الرجل بقبر يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام وعرفه وإذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام. وأخرج إبن عبد البر في الإستذكار والتمهيد عن إبن عباس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من أحد يمر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام صححه عبد الحق. وأخرج إبن أبي الدنيا في القبور والصابوني في المائتين عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ما من عبد يمر على قبر رجل يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام."

(باب زيارة القبور وعلم الموتى بزوارهم ورؤيتهم لهم، ص: 201، ط: دار المعرفة - لبنان)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

"وقال ابن القيم: الأحاديث والآثار تدل على أن الزائر متى جاء علم به المزور وسمع سلامه وأنس به ورد عليه وهذ عام في حق الشهداء وغيرهم وأنه لا توقيت في ذلك."

(کتاب الصلاۃ، باب أحكام الجنائز، فصل في زيارة القبور، ص: 620، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فیض الباری میں ہے :

"أقول: والأحاديث في سماع الأموات قد بلغت مبلغ التواتر. وفي حديث صححه أبو عمرو: أن أحدا إذا سلم على الميت فإنه يرد عليه، ويعرفه إن كان يعرفه في الدنيا - بالمعنى - وأخرجه ابن كثير أيضا وتردد فيه. فالإنكار في غير محله، ولا سيما إذا لم ينقل عن أحد من أئمتنا رحمهم الله تعالى، فلا بد من التزام السماع في الجملة، وأما الشيخ ابن الهمام رحمه الله تعالى فجعل الأصل هو النفي، وكل موضع ثبت فيه السماع جعله مستثنى ومقتصرا على المورد."

(4 /93، باب قول الميت وهو على الجنازة: قدموني، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

2۔۔   قبر کو پختہ بنانا  یا سنگ مرمر سے تعمیر کرنا کوہان پر جائز نہیں ہے، البتہ صرف  حفاظت کی غرض سے دائیں بائیں سے کوئی پتھر لگادینا  کہ اصل قبر  (یعنی جتنے حصے میں میت دفن ہے) کچی مٹی کی ہو، اور اردگرد پتھر، یا بلاک وغیرہ سے منڈیر نما بنا دیا جائے یا معمولی سا احاطہ بنا دیا جائے کہ قبر کا نشان نہ مٹ جائے، یا اردگر زمین پر پختہ فرش کردیا جائے تاکہ قبر واضح ہوجائےتو اس  کی گنجائش ہے، لیکن اس کے لیے بھی   سادہ پتھر استعمال کیا جائے زیب زینت والا کوئی پتھر نہ ہو۔ نیز آگ پر پکی ہوئی اینٹیں بھی نہ لگائی جائیں۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  میں ہے:

 "ولا يربع" ولا يجصص لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن تربيع القبور وترصيصها "ويحرم البناء عليه للزينة" لما رويناه "ويكره" البناء عليه "للإحكام بعد الدفن" لأنه للبقاء والقبر للفناء .

 قوله: "ولا يجصص" به قالت الثلاثة لقول جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تجصيص القبور وإن يكتب عليها وأن يبنى عليها رواه مسلم وأبوداود والترمذي وصححه وزاد وأن توطأ قوله: "لنهي النبي صلى الله عليه وسلم" يفيد أن ما ذكره مكروه تحريما قوله: "لما روينا" من النهي عن التجصيص والتربيع فإنه من البناء قوله: "ويكره البناء عليه" ظاهر إطلاقه الكراهة أنها تحريمية قال في غريب الخطابي نهى عن تقصيص القبور وتكليلها انتهى التقصيص التجصيص والتكليل بناء الكاسل وهي القباب والصوامع التي تبنى على القبر قوله: "وأما قبل الدفن الخ" أي فلا يكره الدفن في مكان بنى فيه كذا في البرهان قال في الشرح وقد اعتاد أهل مصر وضع الأحجار حفظا للقبور عن الإندارس والنبش ولا بأس به وفي الدر ولا يجصص ولا يطين ولا يرفع عليه بناء وقيل لا بأس به هو المختار اهـ قوله: "وفي النوازل لا بأس بتطيينه" وفي التجنيس والمزيد لا بأس بتطيين القبور خلافا لما في مختصر الكرخي لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بقبر ابنه إبراهيم فرأى فيه حجر أسقط فيه فسده وقال: "من عمل عملا فليتقنه" وروى البخاري أنه صلى الله عليه وسلم رفع قبر ابنه إبراهيم شبرا وطينه بطين أحمر اهـ."

(1 / 611، باب أحكام الجنائز، فصل في حملها ودفنها، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں