بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مردہ بچہ کو کفن، دفن دینے کا طریقہ


سوال

اگر بچہ فوت شدہ پیدا ہواتو اس کو نہلانا چاہیے؟ اور دوسری بات اس کی قبر کس طرح کی ہونی چاہیے؟مثلاگڑھا کھود کر دفنانا چاہیےیا اس کی قبر تیار کرنی چاہیے؟ جس طرح عام بندے کی کی جاتی ہے؟ اور اس قبر کی شناخت کرنی چاہیے یا نہیں؟ مثلا قبر اوپر سے زمین کے ساتھ برابر کرنی چاہیےیا جس طرح عام قبریں اوپر سے بنائی جاتی ہیں اس طرح سے بنائی جائے؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں فوت شدہ بچہ پیدا ہوجائے اوراس کےاعضاء بن چکےہوں،تو اس کومسنون طریقہ پر نہلایاجائے گا،کفن پہنایا جائے گااورعام مردو ں کی طرح دفنایا جائے گا،اس کا نام رکھا جائے گا،البتہ نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اورقبرجس طرح عام طور پر قبر بنائی جاتی ہےاس طرح بنائی جائے اور یہی احوط ہےکہ مسنون طریقہ کے مطابق قبر بنائی جائے ۔

شرح مختصر الطحاوی للجصاص میں ہے:

"قال أبو جعفر: (ويكفن ‌الجنين، ثم يغسل ويدفن ولا يصلي عليه، إلا أن تعلم حياته)."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز، يغسل ‌الجنين، ولا يصلي عليه إلا إذا استهل، ج:٢، ص:١٩٧، ط:دار البشائر الإسلامية)

فتح القدیر لابن الہمام میں ہے:

"(وإن لم يستهل أدرج في خرقة)كرامة لبني آدم (ولم يصل عليه) لما روينا، ويغسل في غير الظاهر من الرواية لأنه نفس من وجه، وهو المختار."

(كتاب الصلاة، باب الجنائز، فصل في الصلاة على الميت، ج:١،ص:١٣٠، ط:دار الفكر بيروت)

احکام میت میں ہے:

"اسقاط حمل میں یا معمول کے مطابق ولادت میں مرا ہوا بچہ پیدا ہوا اور پیدائش کےوقت زندگی کی کوئی علامت اس میں موجود نہ ہواگرچہ اعضاء سب بن چکے ہوں تو ایسے بچہ کا وہی حکم ہے جو پچھلے مسئلہ میں بیان ہواکہ اس کو غسل بھی دیا جائے اور نام بھی رکھا جائے لیکن باقاعدہ کفن نہ دیا جائے اور نہ جنازہ کی نماز پڑھی جائے بلکہ یوں ہی کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے۔"

(اسقاط حمل کے مسائل، باب پنجم، ص:194، ط:ادارہ الفاروق کراچی)

احسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"اسقاط کی صورت میں اگر کوئی عضو بن گیاہو مگر پوارا جسم نہ بنا ہو تو اس پر پانی بہاکر کپڑے میں لپیٹ کر کہیں بھی دفن کرکے زمین ہموار کردی جائے غسل اور کفن و دفن میں طریق مسنون کی رعایت نہیں کی جائے گی اور پوارا جسم بن چکاہو تو غسل اور کفن ودفن بطریق مسنون میں اختلاف ہے، بطریق مسنون کا قول احوط اور دوسرا ایسر ہے۔"

(باب الجنائز،مردہ پیدا ہونے والے بچے کے غسل وغیرہ کا حکم،ج:4،   ص:216، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101520

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں