بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مردہ پیدا ہوئے بچے کی قبرستان میں تدفین


سوال

 مردہ پیدا ہوۓ بچے کی تدفین قبرستان میں کی جاۓ گی  یا نہیں؟

جواب

اگر  بچہ  مردہ پیدا ہو  یعنی پیدائش کے وقت زندگی کی کوئی علامت اس میں موجود نہ ہو، لیکن اس کے اعضاء بن چکے ہوں تو ایسے بچے کا حکم یہ ہے کہ اس بچے کا نام رکھا جائے، اسے غسل  دے کر کسی کپڑے میں لپیٹ کر قبرستان میں  دفنایا جائے۔ لیکن  اس کو باقاعدہ مسنون کفن نہیں دیا جائے گا  اور  اس  کی  جنازہ  کی نماز  بھی نہیں پڑھی  جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 228) :

"(وإلا) يستهل (غسل و سمي) عند الثاني، وهو الأصح، فيفتى به على خلاف ظاهر الرواية إكراماً لبني آدم، كما في ملتقى البحار. وفي النهر عن الظهيرية: وإذا استبان بعض خلقه غسل وحشر هو المختار (وأدرج في خرقة ودفن ولم يصل عليه)" .

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں