بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مردہ پیدا ہونے والے بچہ پر جنازہ کی نماز کا حکم


سوال

جو بچہ ماں کے پیٹ سے مردہ پیدا ہو چاہے پورے نو مہینے کا ہی ہو، اس پر اتفاق ہے کہ نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔

میرا سوال یہ ہے کہ اس کو بھی تو رحم مادر میں 4 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہوتا ہے یعنی جس عرصے میں روح پھونک دی جاتی ہے تو پھر اس پر نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھتے جب کہ اسقاط اگر 4, ماہ سے زیادہ کاہو تو اس کی نماز جنازہ اسی دلیل کی بنا پر پڑھتے ہیں کہ چار ماہ کا عرصہ گزر چکا حال آں کہ اسقاط ہونے کے بعد اس میں بھی کوئی زندگی کے آثار نہیں دیکھے جاتے؟

جواب

واضح رہے کہ ہر وہ بچہ جس کی پیدائش کے وقت حیات دنیوی کے آثار پائے گئے ہوں، اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، خواہ اس کی پیدائش قدرتی ہو، یا آپریشن سے، یا اسقاط کیا گیا ہو، یا خود ساقط ہوگیا ہو، البتہ جس بچہ میں پیدائش کی وقت زندگی کے آثار نہ پائے گئے ہوں، اس پر جنازے کی نماز نہیں پڑھی جائے گی، خواہ پیدائش فطری ہو، یا آپریشن سے یا اسقاط کی صورت میں، لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائل کا اعتراض درست نہیں ہے، اور سائل نے جو مسئلہ ذکر کیا ہے وہ غلط ہے، اسقاط کی صورت میں بھی یہی حکم ہے کہ اگر پیدائش کے وقت اس میں حیات کے آثار نہ ہوں تو اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وَيُصَلَّى عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ مَاتَ بَعْدَ الْوِلَادَةِ صَغِيرًا كَانَ أَوْ كَبِيرًا ذَكَرًا كَانَ أَوْ أُنْثَى حُرًّا كَانَ أَوْ عَبْدًا ( الْبَابُ الْحَادِي وَالْعِشْرُونَ فِي الْجَنَائِزِ، الْفَصْلُ الْخَامِسُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ، ١/ ١٦٣، ط: دار الفكر) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109203076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں