بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرده كی برائی کرنا


سوال

بھتیجا اپنی پھوپھی کو گندی گالیاں دے  اور پھوپھی بھی عرصہ دراز سے دنیا فانی سے رخصت ہوگئی ہو، سگے پھوپھی زاد بھائی  کو بولے تیری ماں کے ساتھ ۔۔۔۔ تیری ماں کو  ۔۔۔۔ اور پھوپھی زاد گالیوں کا کوئی جواب نہ دے  ۔تو شریعت محمدیہ میں اس کی کیا سزا ہے؟

جواب

واضح رہے  گالی دینا  کبیرہ گناہ  ہے ،کسی مسلمان  کو ایسے الفاظ کہنا جس  سے اس کو تکلیف ہو  ناجائز ہے ،احادیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں ، اور جن الفاظ میں گالی دی جاتی ہے   ان کا مذاق میں بولنا بھی  سخت گناہ ہے، احادیث میں اس سے بھی سختی سے منع کیا گیا ہے  ،   جیساکہ  رسول اللہ  ﷺ  نے مسلمان کو گالی دینے کو کبیرہ گناہ قراردیا ہے، اسی طرح ایک اور حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے گالی دینے کو   نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔

ایک  حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم فحاشی اور فحش گوئی سے بچو؛ کیوں کہ اللہ  تعالیٰ  فحاشی اور فحش گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ  میں   مذکورہ  شخص کا  گالیاں دینا شرعاً  قابل مذمت اور قابل ترک عمل ہے ، جیسا کہ مذکورہ  بالا تفصیل سے واضح ہے ،   پھر خاص کر   اپنی  مرحومہ پھوپھی کو  گالی دینا اس عمل کی قباحت اور شناعت میں مزید اضافہ کردیتا ہے  ،   لہذا  مذکورہ  شخص کا  اگر کوئی  معاملہ قابل حل ہے تو  گالم گلوچ کی بجائے خاندان کے بڑوں  کو درمیان میں بٹھا کر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے ،پھوپی زاد بھائی اس کی گالیوں کا جواب نہیں  دیتا تو بہت اچھا کرتا ہے ،اللہ تعالی اس پر اجر وثواب  عطا فرمائیں گے ۔

مشكو ة المصابيح میں ہے:

"عن ابن مسعود - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سِباب المؤمن فسوق، وقتاله كُفر. متفق عليه."

(كتاب الآداب، باب حفظ اللسان،  الفصل الأول، ج:٣، ص:١٣٥٦، ط:المكتب الاسلامي بيروت)

مشكو ة المصابيح میں  ہے : 

"وعن عبد الله بن عمرو أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:   أربع من كن فيه كان منافقًا خالصًا و من كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا اؤتمن خان وإذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر."

( كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، الفصل الأول، ج:1، ص:23، ط:المكتب الاسلامي بيروت) 

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس ‌المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذيء."

(باب حفظ اللسان، الفصل الثاني، ج: 3، ص: 1362، ط: المكتب الإسلامي بيروت

فتح الباري میں ہے:

"وقال ابن بطال: ‌سب ‌الأموات يجري مجرى الغيبة فإن كان أغلب أحوال المرء الخير وقد تكون منه الفلتة فالاغتياب له ممنوع وإن كان فاسقا معلنا فلا غيبة له فكذلك الميت".

(باب ما ينهى من سب الأموات، ج:3، ص:259، ط:دار المعرفة بيروت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"مردہ کی غیبت کرنا اور اُس کی برائی کرنا زندوں کی غیبت سے بھی زیادہ سخت ہے، اُس کی تلافی کی شکل یہ ہے کہ غیبت کرنے والا اپنے گناہ سے توبہ واستغفار کرے، اور جس کی غیبت کی ہے لوگوں میں اُس کی خوبیاں بیان کرے، اُس کے لیے  دعاء مغفرت کرے اور صدقہ خیرات تلاوت وغیرہ کرکے اُس کے لیے ایصالِ ثواب کردے، اُمید ہے کہ ان شا ءاللہ کسی حد تک تلافی ہوجائے گی۔"

(مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ، رقم 398،   ج: 18،   ص:  495 ،      ط: مکتبہ دارلافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں