بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مذبوحہ جانور کھانے کا حکم


سوال

حال ہی میں ایک صاحب سے ایک بات سنی جس کے حوالے سے رہنمائی درکار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تمام حیوانات جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے حلال قرار دیا ہے جیسے گائے بکری وغیرہ، اگر ان کو شرعی طریقے سے ذبح نہ کیا جائے تو وہ کھانا حرام نہیں بلکہ مکروہ ہیں، یعنی اسلامی ذبیحہ کے بغیر غیر مسلموں کی طرف سے جھٹکے وغیرہ سے کیے گئے گوشت کو وہ حرام نہیں بلکہ مکروہ قرار دیتے ہیں۔ براہِ  کرم رہنمائی فرمادیں۔

جواب

مردار کے حرام ہونے کو قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے:

{ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (173)}[البقرة: 173]

ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے تم پر صرف حرام کیا ہے مردار کو اور خون کو (جو بہتا ہو) اور خنزیر کے گوشت کو (اسی طرح اس کے سب اجزاء کو بھی) ایسے جانور کو جو (بقصد تقرب) غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر بھی جو شخص (بھوک سے بہت ہی) بیتاب ہوجاوے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ (قدر حاجت سے) تجاوز کرنے والا ہو تو اس شحص پر کچھ گناہ نہیں ہوتا واقعی اللہ تعالیٰ ہیں بڑے  غفور و رحیم۔"

دوسری جگہ فرمایا:

{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ....}[المائدة: 3]

ترجمہ : "تم پر حرام کیے گئے ہیں مردار  اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جو جانور کہ غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرجاوے اور جو کسی ضرب سے مرجاوے اور جو اونچے سے گر کر مرجاوے اور جو کسی ٹکر سے مرجاوے اور جس کو کوئی درندہ کھانے لگے لیکن جس کو ذبح کر ڈالو  اور جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جاوے  اور یہ کہ تقسیم کرو بذریعہ قرعہ کے تیروں کے یہ سب گناہ  ہیں۔"

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

{إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (115)}[النحل: 115]

ترجمہ: "تم پر تو صرف مردارحرام کیا ہے اور خون کو اور خنزیر کے گوشت (وغیرہ) کو اور جس چیز کو غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو پھر جو شخص کہ بالکل بےقرار ہوجاوے بشرطیکہ طالب لذت نہ ہو اور نہ حد (ضرورت) سے تجاوز کرنے والا ہو تو اللہ تعالیٰ بخش دینے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔"

نیز مردار کے حکم میں وہ جانور بھی داخل ہے جس کو شرعی شرائط کے ساتھ،شرعی طریقہ کے مطابق  ذبح نہ کیا گیا ہو۔ لہٰذا شرعی اعتبار سے ذبح کے بغیر جھٹکے کے گوشت  کا استعمال بھی حرام ہے، اس کو  صرف مکروہ قرار دینا درست نہیں۔

"احکام القرآن" میں ہے:

"باب تحريم ‌الميتة.

قال الله تعالى: {إنما حرم عليكم ‌الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل به لغير الله} . قال أبو بكر: ‌الميتة في الشرع اسم للحيوان الميت غير المذكى، وقد يكون ميتة بأن يموت حتف أنفه من غير سبب لآدمي فيه، وقد يكون ميتة لسبب فعل آدمي إذا لم يكن فعله فيه على وجه الذكاة المبيحة له..... قال أصحابنا: لا يجوز الانتفاع بالميتة على وجه ولا يطعمها الكلاب والجوارح لأن ذلك ضرب من الانتفاع بها، وقد حرم الله ‌الميتة تحريما مطلقا معلقا بعينها مؤكدا به حكم الحظر فلا يجوز الانتفاع بشيء منها إلا أن يخص شيء منها بدليل يجب التسليم له."

(130/1)

وفيه أيضاّ:

"قال الله تعالى: {‌حرمت ‌عليكم ‌الميتة والدم} وقال في آخرها {إلا ما ذكيتم} [المائدة: 3] وقال: إنما {‌حرمت ‌عليكم ‌الميتة} فحرم الله الميتة مطلقا واستثنى المذكى منها وبين النبي صلى الله عليه وسلم الذكاة في المقدور على ذكاته في النحر واللبة وفي غير المقدور على ذكاته بسفح دمه فقوله عليه السلام: "أنهر الدم بما شئت". وقوله في المعراض: "إذا خزق فكل وإذا لم يخزق فلا تأكل" فلما كانت الذكاة منقسمة إلى هذين الوجهين وحكم الله بتحريم الميتة حكما عاما واستثنى منه المذكى بالصفة التي ذكرنا على لسان نبيه ولم تكن هذه الصفة موجودة في الجنين، كان محرما بظاهر الآية."

(أحكام القرآن للجصاص ،‌‌سورة البقرة، باب ذكاة الجنين،1/ 135، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں