مردہ بچہ کا جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ کیا ہے؟
اگر بچہ مردہ پیدا ہو یعنی پیدائش کے وقت زندگی کی کوئی علامت اس میں موجود نہ ہو تو ایسے بچے پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جائے گی۔
اور جو بچہ زندہ پیدا ہو اور بعد میں مرجائے یا پیدا ہوتے ہی فورًا مرجائے، اس کے غسل، کفن، نماز، دفن وغیرہ کے اَحکام بڑوں کی طرح ہیں، یعنی اسے مسنون غسل اور کفن دیا جائے گا، نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی، پھر دفن کیا جائے گا اور اس کا نام بھی رکھا جائے گا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے مسلمان مرحوم پر جنازہ کی نماز کی حکمت یہ لکھی ہے کہ مسلمانوں کا جمع ہو کر میت پر نمازِ جنازہ ادا کرنا میت کے حق میں شفاعت بھی ہے اور میت کے لیے نزولِ رحمت کا باعث بھی ہے اور یہ ضروریات بالغ کی ہیں، پھر جو بچہ نابالغ فوت ہو جاتا ہے اس کا جنازہ بھی بنی آدم کے اکرام اور اعزاز کی بناء پر پڑھا جاتا ہے اور اس کے جنازہ میں یہ دعا مانگی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہمارے لیے ذخیرہ بنائیں۔
باقی جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہی فوت ہو جاتا ہے وہ چوں کہ زندہ ہو کر اس دنیا میں آیا ہی نہیں، آخرت کے احکامات سے بھی مستثنیٰ ہے؛ اس لیے اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم نہیں ہے۔
حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے:
"وإنما شرعت الصلاة على الميت لأن اجتماع أمة من المؤمنين شافعين للميت له تأثير بليغ في نزول الرحمة عليه."
(الجنائز، جلد:2، صفحہ: 57، طبع: دار الجیل- بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما بيان من يصلى عليه فكل مسلم مات بعد الولادة يصلى عليه صغيرا كان، أو كبيرا، ذكرا كان، أو أنثى، حرا كان، أو عبدا إلا البغاة وقطاع الطريق، ومن بمثل حالهم لقول النبي: - صلى الله عليه وسلم - «صلوا على كل بر وفاجر» وقوله: «للمسلم على المسلم ست حقوق» وذكر من جملتها أن يصلى على جنازته من غير فصل إلا ما خص بدليل، والبغاة ومن بمثل حالهم مخصوصون لما ذكرنا."
(کتاب الصلاۃ، فصل بيان فريضة صلاة الجنازة وكيفية فرضيتها، جلد:1، صفحہ: 311، طبع: دار الكتب العلمية)
بدائع الصنائع میں ہے:
"روي عن أبي هريرة - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا استهل المولود غسل وصلي عليه وورث، وإن لم يستهل لم يغسل ولم يصل عليه ولم يرث»."
(کتاب الصلاۃ،فصل شرائط وجوب الغسل، جلد:1، صفحہ: 302، طبع: دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
"وذكر المصنف أن حكمه الصلاة عليه ويلزمه أن يغسل وأن يرث ويورث وأن يسمى، وإن لم يبق بعده حيا لإكرامه؛ لأنه من بني آدم."
(کتاب الجنائز، جلد:2، صفحہ: 202، طبع: دار الکتاب الاسلامی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506101764
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن