بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مردہ بچے اور نومولود کے غسل، کفن، جنازہ اور تدفین کے احکام


سوال

حمل کے  چھٹے مہینہ میں اگر بچہ کی ولادت ہوجائے اور بچہ مردہ پیدا ہو یا پھر زندہ پیدا ہو بعد میں مر جائے، تو اس کی کیا تفصیل ہے؟ کیا اس کا غسل، جنازہ، تدفین و قبر بنائی جائے گی؟ یا پھر کچھ اور ترتیب ہوگی؟

جواب

جو بچہ ماں کے پیٹ سے مرا ہوا پیدا ہو یعنی پیدا ہوتے وقت اس میں زندگی کی کوئی علامت نہیں پائی جائے، اس کو بھی بڑوں کی طرح مسنون غسل دیا جائے گا، لیکن قاعدہ کے مطابق کفن نہیں دیا جائے گا، بلکہ کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر بغیر نمازِ جنازہ کے دفن کر دیا جائے گا۔ ایسے  بچے  کا نام  بھی رکھ دینا چاہیے۔

اور جو بچہ زندہ پیدا ہو اور بعد میں مرجائے یا پیدا ہوتے ہی فورًا مرجائے، اس کے غسل، کفن، نماز، دفن وغیرہ کے  اَحکام بڑوں کی طرح ہیں، یعنی اسے مسنون غسل اور کفن دیا جائے گا، نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی، پھر دفن کیا جائے گا اور اس کا نام بھی  رکھا  جائے  گا۔

اور اگر  بچہ ناتمام پیدا ہو یعنی اس کے ہاتھ پاؤں منہ ناک وغیرہ عضو کچھ نہ بنے ہوں تو اسے نہلانے، کفنانے کی ضرورت نہیں،  بلکہ کسی کپڑے میں لپیٹ کر ایک گڑھا کھود کر گاڑ دیا جائے۔ اور اگر ناتمام بچہ کے کچھ اعضاء بن گئے ہوں تو اس کا حکم وہی ہے جو مردہ بچہ پیدا ہونے کا ہے۔

(ماخوذ از بہشتی زیور، حصہ دوم، ص:131، ط: دارالاشاعت)

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:159، 163، ط: دار الفكر):

’’ومن استهل بعد الولادة سمي وغسل وصلي عليه وإن لم يستهل أدرج في خرقة ولم يصل عليه ويغسل في غير الظاهر من الرواية وهو المختار، كذا في الهداية، والاستهلال ما يعرف به حياة الولد من صوت أو حركة ولو شهدت القابلة أو الأم على استهلال الولد فإن قولهما مقبول في جواز الصلاة عليه، هكذا في المضمرات. السقط الذي لم تتم أعضاؤه لا يصلى عليه باتفاق الروايات والمختار أن يغسل ويدفن ملفوفا في خرقة، كذا في فتاوى قاضي خان.

ويصلى على كل مسلم مات بعد الولادة صغيرًا كان أو كبيرًا ذكرًا كان أو أنثى حرًّا كان أو عبدًا إلا البغاة وقطاع الطريق ومن بمثل حالهم وإن مات حال ولادته فإن كان خرج أكثره صلي عليه وإن كان أقله لم يصل عليه وإن خرج نصفه لم يذكر في الكتاب ويجب أن يكون هذا على قياس ما ذكرنا من الصلاة على نصف الميت، كذا في البدائع.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144203200745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں