ہمارے کچھ علماء اجارہ کے اصول کی روشنی میں اسلامی بینک سے گاڑی یا گھر لینے کو جائز سمجھتے ہیں، جس میں دو چیزوں کے حرام ہونے کا شبہ ہوتا ہے:
قسط دیر سے ادا کرنے پر جرمانہ اور انشورنس ۔ جب کہ ہمارے اکابر علماء ادائیگی قسط میں تاخیر پر جرمانےکے لیے امام مالک رحمہ اللہ کے قول پرفتوی دیتے ہیں اور انشورنس کو تکافل کی صورت میں لیتے ہیں ۔
ان تمام باتوں کی روشنی اسلامی بینک سے گاڑی یا گھر لینے میں شرعاً کوئی قباحت تو نہیں؟ بلا جھجھک گھر یا گاڑی بینک سے لے سکتے ہیں؟
ملک کے جمہور اہلِ علم کے نزدیک مروجہ اسلامی بینکوں میں رائج اجارہ ودیگر معاملات جائز نہیں، لہذا مروجہ اجارہ کی بنیاد پر کار یا گھر لینا جائز نہیں۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: مروجہ اسلامی بینکاری از رفقائے دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن ، مطبوعہ مکتبہ بینات۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109201536
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن