ایک شخص مروجہ سکے تول کر خریدتا ہے اور اس کی غرض دھات ہوتی ہے، جسے پگھلا کر وہ اپنے کام میں لاتا ہے، مالیت غرض نہیں، کیا اس طرح خریدنا جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ سکّے مروّجہ ہیں اس کی مالیت ختم نہیں ہوئی یعنی حکومت نے ان کی مالیت ختم نہیں کی، تو ایسی صورت میں مروّجہ سکوں کو اسی ملک کی کرنسی کے ساتھ کمی بیشی کے ساتھ خریدنا ناجائز اور سود ہے،لہذا مذکورہ مروّجہ سکوں سے غرض اگرچہ دھات ہے اس کو تول کر کمی بیشی کے ساتھ خریدنا سود ہے، جس سے اجتناب کرنا لازمی ہے، البتہ جواز کی صورت یہ ہے کہ ان سکوں کے ساتھ کوئی دوسری چیز بھی شامل کر کے فروخت کی جائے مثلا پانچ ہزار روپے کی مالیت کے سکوں کے ساتھ کوئی چیز جیسے قلم وغیرہ رکھ کر زائد قیمت میں وہ سکے فروخت کر دیے جائیں، تو وہ زائد رقم اس قلم کے بدلے میں ہوگی ایسا کر کے سکوں کو فروخت کرنا درست پر جائز ہوگا۔
فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:
"شرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط)...(والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا."
(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:، ص:، ط:ایچ ایم سعید)
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري میں ہے:
"قوله: (ويجوز البيع بالفلوس) لأنها مال معلوم. قوله: (فإن كانت نافقة جاز البيع بها، وإن لم تعين) لأنه لا فائدة في تعينها، وإذا لم تعين فالعاقد بالخيار إن شاء سلم ما أشار إليه منها، وإن شاء سلم غيره، وإن هلكت لم ينفسخ العقد بهلاكها. قوله: (وإن كانت كاسدة لم يجز البيع بها حتى يعينها) لأنها خرجت من أن تكون ثمنا وما ليس بثمن لا بد من تعيينه في حالة العقد كالثياب وقيد بالكساد؛ لأنها إذا غلت، أو رخصت كان عليه رد المثل بالاتفاق كذا في النهاية".
(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:1، ص:224، ط:دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100917
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن