سوال یہ ہے کہ زکاة کے نصاب میں اعتبار سال کے ابتدا کا ہوگا یا انتہا کا ، مثلا ایک شخص ایک لاکھ کا مالک بنا یکم محرم ١٤٤٤ کو اور حکومتِ وقت نےاس سال زکوة کے نصاب کی تعیین ایک لاکھ کرتی ہیں، یعنی یکم محرم ١٤٤٤ میں جس کے پاس ایک لاکھ روپے ہوں وہ زکوة دے گا، لیکن مذکورہ شخص پر زکاة اس لۓ نہیں ہوگی کہ یہ مالک ہی اسی دن بنا اور اسکے نصاب پر سال نہیں گزرا اور جب مذکورہ شخص کا سال مکمل یعنی یکم محرم ١٤٤٥ میں ہورہا ہے تو اب حکومت وقت زکاة کے نصاب کی تعیین ایک لاکھ دس ہزار سے کرتی ہے ،اور مذکورہ شخص کے پاس پورے سال جو رقم رہی وہ ایک لاکھ پانچ ہزار ہے ،تو کیا یہ شخص سال ١٤٤٤ کا نصاب ایک لاکھ کے حساب سے زکوة نکالے گا کہ اس پر سال مکمل ہوچکا یا سال ١٤٤٥ کا اعتبار کرتے ہوۓ اس پر زکاة نہیں ہوگی ؟
صورتِ مسئولہ میں جو شخص یکم محرم ۱۴۴۴ کو مارکیٹ کی قیمت کے اعتبار سے صاحب نصاب تھا تو اس دن سے اس کے زکوۃ کے سال کا آغاز شمار ہوگا، زکاۃ لازم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ شخص یکم محرم ۱۴۴۵ کو بھی اس دن کے حساب سے صاحب نصاب ہو، اگر یکم محرم ۱۴۴۵ کو چاندی کی قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے اس کے پاس موجود رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے کم ہوگئی ہو تو اس پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔
در مختار میں ہے:
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام)."
( رد المحتار على الدر المختار: ج:2 ص:259، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144508102666
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن