بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ اسلامی بینکوں کے توسط سے گھر خریدنا


سوال

ہم گزشتہ چند سالوں سے بیرونِ ملک مقیم ہیں اور دبئی میں گھر خریدنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں ہم گذشتہ چھ سالوں سے مقیم ہیں، لہذا ہم آپ سے اسلامی بینکنگ کے حلال ہونے کے بارے میں کچھ وضاحت طلب کرنا چاہتے ہیں، یہاں دبئی میں کئی اسلامی بینک ہیں: ابو ظبی اسلامی بینک، امارات اسلامی بینک، دبئی اسلامی بینک۔ وہ مشارکہ ، مضاربہ اور مرابحہ پیش کررہے ہیں۔ہم جاننا چاہیں گے کہ کیا یہ سب چیزیں گھر خریدنے کے لیے حلال ہےیا نہیں؟

براہِ کرم ان پر بھی رُوشنی ڈالیں:

  • ہوم فنانسنگ (اسلامی)
  • رہن (اسلامی)
  • عصری بینکنگ کے مقابلے میں Riba کا اصل تصور کیسا ہے؟
  • منافع کی تقسیم کیسے کام کرتی ہے؟

ہم صرف اس صورت میں خریدیں گے جب ہم پوری طرح مطمئن ہوں، یہاں دل چسپی کا کوئی تصور نہیں ہے۔

جواب

مروجہ اسلامی  بینکوں کے توسط سے گھر خریدنا(ہاؤس فنانسنگ )درج ذیل شرعی قباحتوں کی بناپر جائز نہیں ہے :

1.پہلی قباحت یہ ہے کہ بینک سے خریدنے والے اور بینک کے درمیان معاہد ہ کے تحت  دو عقد ہوتے ہیں ، ایک بیع(خرید وفروخت )اور دوسرا اجارہ(کرایہ داری )کا عقدہوتاہے ، اور یہ طے پاتاہے  کہ اقساط میں سے اگر کو ئی قسط وقتِ مقررہ پر جمع  نہیں کرائی گئی  تو خریداربینک کی جانب سے مقررہ جرمانہ اداکرنے کا پابند ہوگا جوکہ شرعاً جائزنہیں ہے ۔

2.دوسری قباحت یہ ہے  کہ بینک  سے قسطوں پر خریدتے وقت  دو عقد   بیک وقت  ہوتے ہیں ، ایک عقد بیع کا ہوتاہے جس کی بناپر قسطوں   کی  شکل میں  ادائیگی  خریدار پر واجب ہو تی ہے اور اسی کے ساتھ  ہی اجارے    کابھی معاہدہ ہوتاہے  جس کی بناپر  ہر ماہ  کر ائے کی مد میں بینک  خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتاہے اور یہ دونوں عقد ایک ساتھ ہی کیے جا تے ہیں جو کہ ناجائز ہے ،یعنی معاہدے کے اندر یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ جس دن گھر کی مالیت کے بقدر کرایہ پورا ہوجائے گا تواس کے بعد یہ گھر  بینک سےکرایہ پر لینے والے شخص کی ملکیت میں  آجائے گا،تواس طرح ایک ہی وقت میں دو معاملے پائے گئے،جو کہ شرعاً نا جائز ہے،کیونکہ شرعاً ایک معاملہ ختم ہونے سے پہلے دوسرا معاملہ نہیں کیا جاسکتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس  سے منع فرمایا ہے۔

3.تیسری خرابی یہ ہے کہ  ’’کائی بور‘‘ کے ریٹ کی وجہ سے اصل قیمت میں کمی زیادتی  ہو تی ہےکہ اگر ڈالر کا ریٹ بڑھ جائے تو قیمت ملکی کرنسی میں بڑھ جاتی ہے حالانکہ سوداکرتے وقت جس قیمت پر سودا ہوتا ہے تو سودے کے بعد فروخت کنندہ کی طرف سے اس قیمت میں اضافہ کرنا جائز نہیں ہے۔

تاہم اگر بینک والےگھر  پر قبضہ کرنے کے بعد سائل پر اضافی رقم کے ساتھ،اس رقم کو متعین کرکےقسطوں میں فروخت کرتے ہیں اور تاخیر کی صورت میں کوئی اضافی رقم  بھی وصول نہیں کرتے اور بعد میں رقم میں  کسی بھی وجہ سے اضافہ بھی نہیں کرتے تو مذکورہ معاملہ شرعا درست ہوگا ۔

لیکن اگر قبضہ کے بغیر آگے فروخت کرتے ہیں یاتاخیر کی صورت میں جرمانہ وصول کرتےہیں یا قیمت میں بعد میں اضافہ کر دیتے ہیں یا بیع کے معاملہ میں اجارہ کو داخل کردیتےہیں ،تو ایسی صورت  میں جائز نہیں ہوگا ۔

نیز ان بینکوں میں رائج تمویلی طریقوں  مشارکہ،مضاربہ اور مرابحۃ مؤجلہ وغیرہ میں بھی ایک عقد میں کئی عقود جمع کرنے کی خرابی پائی جاتی ہے۔باقی سوال کے آخر میں جن امور کے بارے میں  آپ نے پوچھا ہے، ان کے جوابات تفصیل طلب ہیں، جس کے لیے مندرجہ ذیل دو کتابوں  کا مطالعہ مفید رہے گا: 

  1. ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ شائع کردہ: مکتبہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
  2. ’’غیرسودی بینکاری کا منصفانہ جائزہ‘‘ مؤلفہ:مفتی احمد ممتاز صاحب دامت برکاتہم

حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ‌بيعتين ‌في ‌بيعة."

(سنن الترمذي، أبواب البيوع: 3/ 525، ط:مطبعة مصطفي البابي)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"(المادة 245) :البيع مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح."

(الكتاب الأول، الباب الثالث، الفصل الثاني، ص:50، ط:نورمحمد كتب خانه)

البحر الرائق میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير ‌سبب ‌شرعي."

(کتاب الحدود، فصل في التعزیر:5/ 44، ط:دار الکتاب الإسلامی)

ہدایہ  میں ہے:

"قال (ومن باع ثمرةلم يبد صلاحها أو قد بدا جاز البيع) ؛ لأنه مال متقوم، إما لكونه منتفعا به في الحال أو في الثاني، وقد قيل لا يجوز قبل أن يبدو صلاحها والأول أصح (وعلى المشتري قطعها في الحال) تفريغا لملك البائع، وهذاإذا اشتراها مطلقا أو بشرط القطع (وإن شرط تركها على النخيل فسد البيع) ؛ لأنه شرط لا يقتضيه العقد وهو شغل ملك الغير أو هو صفقة في صفقة وهو إعارة أو إجارة في بيع."

وفی فتح القدیر تحتہ:

"لأنه إن شرط بلا أجرة فشرط إعارة في البيع أو بأجرة فشرط إجارة فيه."

(كتاب البيوع: 6/ 288، دارالفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما شرائط الصحة...ومنها أن لا يكون مؤقتا فإن أقته لم يصح ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح."

(كتاب البيوع، الباب الأول :3/ 3، ط:رشيديه)

وفیہ ایضاً:

"وإذا زاد في الثمن لا بد أن يقبل الآخر في المجلس حتى ولو لم يقبل وتفرقا بطلت، كذا في الخلاصة."

(کتاب البیوع، الباب السادس عشر :3/ 171، ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں