بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ اسلامی بینکاری کا حکم/ اسلامی بینک میں نوکری کرنے والے کا کسی اور بینک میں نوکری کرنا


سوال

 کیا موجودہ اسلامی بینکاری ابھی بھی حرام ہے؟ میں نے کافی سال پہلے سنا اور پڑھا تھا کہ اس میں اختلاف ہے اور یہ کہ اس میں عوام کو اختیار ہے وہ جس فتویٰ پر عمل کرنا چاہیں گناہ نہیں اور یہ بھی کہ اختلاف حرام کا نہیں افضلیت کا ہے اور وقت کے ساتھ یہ پوری طرح اسلامی ہو جائے گا، لیکن جامعہ کی ویب سائٹ پر پڑھا کہ آپ لوگوں نے اسے حرام اور سودی بینکاری ہی کی دوسری شکل لکھا ہے۔

کیا اب بھی یہ اسلامی بینکنگ اسی طرح حرام ہے؟  کیا اس میں کوئی بہتری نہیں آئی کم از کم میزان بینک تو مفتی تقی صاحب کی نگرانی میں بھی ہے، تو وہ بھی ابھی تک درست بنیادوں پر استوار نہیں ؟

میں سودی بینک میں تھا اور اب میزان میں ہوں آپ مجھے کیا مشورہ دیں گے میں کیا کروں؟  میں تو بہت تکلیف برداشت کر کے میزان آیا ہوں اور ابھی بھی بہت تکلیف دہ حالات میں نوکری کر رہا ہوں، تو کیا میں پرانے بینک واپس چلا جاؤں جب تک بینک سے باہر کوئی جاب نہ ملے؟

جواب

واضح رہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری بھی دیگر روایتی بینکوں کی طرح ناجائز اور حرام ہے اور ہمارے دار الافتاء کا اس متعلق اب بھی یہی موقف ہے اور  آپ کو اس بات میں مغالطہ ہوا ہے کہ اس متعلق جو  اختلاف ہے، وہ افضلیت  کا ہے، بلکہ  یہ اختلاف  جواز اور عدمِ جواز  کا ہے۔

باقی آپ کو چاہیے کہ بجائے کسی دوسرے بینک میں نوکری کرنے کے کوئی  جائز ملازمت  تلاش کریں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں