بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ حیلۂ اسقاط کا شرعی حکم / فوت شدہ فرائض کی تلافی کا طریقہ


سوال

فوتگی کے موقع پر دیہاتوں میں میت کے دفن کرنے سے پہلے یا بعد میں ایک مخصوص انداز میں نقد رقم کی ایک مخصوص مقدار لوگوں میں تقسیم کی جاتی ہے ،آیا فوتگی کے موقع پر اس رقم کا تقسیم کرنا شرعاً جائز ہے ؟ اگر جائز ہے ،تو اس کا احسن طریقہ کار کیا ہوگا ؟پھر  یہ جو رقم تقسیم کی جاتی ہے عموماً امیر و غریب دونوں کو دیتے ہیں، کیا یہ درست ہے یا اس کا مصرف اور مستحق کون ہوگا؟  کیا یہ رقم فوت شدہ فرائض کی تلافی ہو سکتی ہے ؟ اور میت کی طرف سے جو فدیہ دیا جاتا ہے اس کی نوعیت اور کیفیت کیا ہوگی؟  عام عرف میں حیلۂ اسقاط کے نام سے موسوم ہے جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا ہے اس طریقہ پر اس کا تقسیم کرنا اگر جائز ہے، تو اسکی شرعی نوعیت بھی تحریر فرمائیں ، اگر ایک انسان حیلہ اسقاط کی طاقت نہیں رکھتا، تو وہ صرف رواج اور علاقائی رسم کو پورا کرنے کے لیے اس کام کو سر انجام دے تو اسکا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دیہاتوں میں میت کے دفن کرنے سے پہلے یا بعد میں جو ایک مخصوص انداز میں نقد رقم کی ایک مخصوص مقدار لوگوں میں تقسیم کی جاتی ہے اس عمل کو "حیلۂ اسقاط "کہتے ہیں اور عام طور پر اس میں امیر وغریب کا فرق نہیں کرتے ،بلکہ دونوں کو یہ رقم دیتے ہیں تو مروجہ طریقے پر یہ حیلۂ اسقاط کرنا شرعاً جائز نہیں ،بعض فقہاء نے حیلۂ اسقاط کی اجازت مخصوص شرائط کے ساتھ اس شخص کے لیے دی تھی جس کی کچھ نماز یں اور روزے وغیرہ اتفاقی طور پر فوت ہوگئے ہوں، پھر قضا کرنے کا موقع نہ ملا اور موت کے وقت فدیہ کی وصیت تو  کی ہو ، لیکن مرحوم نے اتنا ترکہ نہ چھوڑا جس کے ایک تہائی سے ان کے تمام فوت شدہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کیا جاسکے اور ورثاء بھی اتنی استطاعت نہ رکھتے ہوں کہ اس کی وصیت پر عمل کرکے اس کی طرف سے فدیہ ادا کردیں ،اور اس کے لیے فقہاء نے ایک صورت ذکر کی تھی،لیکن آج کل ان شرائط کے بغیر ہر ایک میت کے مرنے پر حیلۂ اسقاط کا عمل کیا جاتا ہے اور اس کو معمول بنا لیا ہے ،تو مروجہ طریقے پر امیر وغریب کے تفریق کے بغیر مخصوص رقم کو تقسیم کرنا اور اس کو معمول بنانا شرعاً ناجائز ہے،نیز اس حیلہ کو لازم سمجھ کر کرنا خود ایک بدعت ہے؛ لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔

فوت شدہ فرائض کی تلافی کے لیے شریعت نے یہ طریقہ بتلایا ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنے فوت شدہ فرائض کی تلافی کرے ،پھر اگر کسی کے ذمہ کچھ فرائض رہ جائیں تو مرنے سے پہلے وہ ان فوت شدہ فرائض کے بارے میں وصیت کرجائے ،پھر اگر اس نے وصیت کی ہو تو ورثاء پر اس کے ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے اس کو پورا کرنا لازم ہوگا ،اور اگر ایک تہائی ترکہ اس فدیہ کے لیے کافی نہ ہو تو تمام ورثاء یا کوئی ایک وارث اپنی خوشی سے اس کو ادا کردے تو ان کا میت پر احسان ہوگا اور اگر مرحوم نے وصیت نہ کی ہو تو اس صورت میں ورثاء پر اس فدیہ کو ادا کرنالازم نہیں ہوتا ،لیکن ورثاء اپنی خوشی سے وہ فدیہ ادا کردیں تو آخرت میں مرحوم کی خلاصی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

لہذا اگر کسی نے مذکورہ شرائط کے بغیر حیلۂ اسقاط کیا یعنی ایک شخص کے ذمہ کچھ فرائض تھے ،لیکن اس نے وصیت نہیں کی تھی یا وصیت کی تھی اور اس کے ترکہ کا ایک تہائی حصہ  ان فرائض کے فدیہ کے لیے کافی تھا اور اس کے باوجود  اس کے ورثاء نے اس حیلۂ اسقاط پر عمل کیا تو یہ ان فرائض کی تلافی کے لیے کافی نہیں ہوگا۔

حیلۂ اسقاط کی طاقت نہ ہونے کے باوجود صرف رواج اور علاقائی رسم پورا کرنے کے لیے اس کام کو سرانجام دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔

فقہاء نے جو مخصوص شرائط کہ اس شخص نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو اور اس کے ترکہ کا ایک تہائی حصہ اس کے لیے کافی نہ ہو اور اس کے ورثاء بھی صاحبِ استطاعت نہ ہوں تو ایسے شخص کے لیے جو فقہاء نے حیلۂ اسقاط کی اجازت دی تھی، اس کی جائز صورت یہ تھی  کہ  ورثاء  فدیہ کی نیت سے کچھ رقم کسی غریب و نادار مستحق زکاۃ کو دے کر اس کو اس رقم کا اس طرح مالک بنادیں کہ اگر وہ مستحق رقم واپس کرنے کے بجائے خود استعمال کرلے تو ورثاء کو کوئی اعتراض نہ ہو  اور وہ مستحق شخص یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں یہ رقم مرحوم کے ورثاء  کو واپس نہ کروں تو انہیں واپس لینے کا اختیار نہیں ہے، پھر وہ مستحق کسی قسم کے جبر  اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے وہ رقم ورثاء  کو واپس کردے اور پھر ورثاء  اسی مستحق کو یا کسی اور مستحق کو اسی طرح مذکورہ طریقے کے مطابق وہ رقم دے دیں اور وہ بھی اپنی خوش دلی سے  انہیں واپس کردے، اس طرح باربار  ورثاء  یہ رقم کسی مستحق کو  دیتے رہیں اور وہ اپنی خوشی و مرضی سے واپس کرتا رہے، یہاں تک کہ مرحو م کی قضا شدہ نمازوں کے فدیہ کی مقدار ادا ہوجائے تو اس طرح فدیہ ادا ہوجائے گا اور اب وہ رقم سب سے آخر میں جس نادار ومستحق شخص کو ملے گی، وہی اس رقم کا مالک ہوگا اور اسے ہر طرح اس رقم کو خرچ کرنے کا اختیار ہوگا، یہ نہ ہو کہ  آخر میں ورثاء  اس آخری شخص سے وہ رقم آپس میں تقسیم کرلیں یا کسی غنی ومال دار اور غیر مسکین کو وہ رقم کو دے دیں اور نہ ہی  اس آخری مستحق شخص پر رقم کی واپسی کے لیے کسی قسم کا دباؤ وغیرہ ڈالنے کی اجازت ہوگی۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌أحدث ‌في ‌أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد»."

(كتاب الإيمان،باب الإعتصام بالكتاب والسنة،الفصل الأول،27/1،ط:رحمانية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ولو لم يترك مالا إلخ) أي أصلا أو كان ما أوصى به لا يفي. زاد في الإمداد: أو لم يوص بشيء وأراد الولي التبرع إلخ وأشار بالتبرع إلى أن ذلك ليس بواجب على الولي ونص عليه في تبيين المحارم فقال: لا يجب على الولي فعل الدور وإن أوصى به الميت لأنها وصية بالتبرع، والواجب على الميت أن يوصي بما يفي بما عليه إن لم يضق الثلث عنه، فإن أوصى بأقل وأمر بالدور وترك بقية الثلث للورثة أو تبرع به لغيرهم فقد أثم بترك ما وجب عليه. اهـ.

مطلب في بطلان الوصية بالختمات والتهاليل:وبه ظهر حال وصايا أهل زماننا، فإن الواحد منهم يكون في ذمته صلوات كثيرة وغيرها من زكاة وأضاح وأيمان ويوصي لذلك بدراهم يسيرة، ويجعل معظم وصيته لقراءة الختمات والتهاليل التي نص علماؤنا على عدم صحة الوصية بها."

(كتاب الصلاة ،باب قضاء الفوائت،73/2،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).

(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد."

(كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت، 72/2، ط: سعيد )

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"‌قال ‌الطيبي: ‌وفيه ‌أن ‌من ‌أصر ‌على ‌أمر ‌مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟."

(كتاب الصلاة،باب الدعاء في التشهد،755/2،ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100857

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں