بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ میت کمیٹیوں میں پائے جانے والے شرعی سقم اور ان کی شرعی حیثیت


سوال

ہمارے گاؤں کے لوگ جو گاؤں سےآئے ہوئےکراچی کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں ،سالوں سال سے فنڈمیت کی تجہیزوتکفین ودفنانے تک کے کے لیے بچے اور بڑے پرسالانہ 200روپےمقررکیاہے،اب اگر کوئی انتقال کرجائے اور سالانہ 200روپے فنڈمیں جمع ہوئی ہوبچہ ہویابڑاتو اس صورت میں فنڈسے جو رقم مقررہےمیت کی تجہیزوتکفین ودفنانے کے لیے،کمیٹی والے نقدکی صورت میں، میت کے رشتہ داروں کو (اگر میت کی عمر10سال سے کم ہوتو 25ہزار روپے،اورجس کی عمر10سال سے زیادہ ہوتو50ہزار)کمیٹی والے دیتے ہیں،اگر کوئی میت کو دفنانے کے لیےگاؤں لے جانا چاہےتواس کو گاڑی کا کرایہ اور راستے میں خرچ کے لیے3000ہزارروپےدیتےہیں،اوراگرکوئی یہ مقرر200روپے سالانہ جمع نہیں کرتابچے یابڑے کا تو اس کو فنڈسے تجہیزوغیرہ کے لیےرقم نہیں ملتی،اسی طرح شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ سالانہ فنڈ میں جمع کردہ رقم کی واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا۔

اب آیایہ فنڈشرعی ہےیا غیرشرعی؟ اگراس صورت کے علاوہ میت کی تجہیزوغیرہ کے لیےفنڈکی گنجائش ہو توبرائےکرم شریعت کی روشنی میں بیان فرمادیجئے۔ 

جواب

واضح رہےکہ جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے اخراجات کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر میت کا ذاتی مال موجود ہوتو اس کے کفن دفن کا خرچہ اسی میں سے کیا جائے گا۔(۱) اگر اس کے ترکہ میں مال موجود نہیں تو اس کے یہ اخراجات اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس پر اس کی زندگی میں مرحوم کا خرچہ واجب تھا،مثلاً اگرمیت کا باپ اور بیٹا دونوں زندہ ہوں تو کفن و دفن کے اخراجات بیٹے کے ذمہ ہوں گے، کیوں کہ جب کسی شخص کے پاس کوئی مال نہ ہواور اس کا باپ اور بیٹا دونوں موجود ہوں تواس کے اخراجاتِ زندگی بیٹے پر واجب ہوتے ہیں ،باپ پر نہیں،اسی طرح بیوی کا کفن دفن شوہر کے ذمہ لازم ہوتا ہے، اگرچہ اس کے پاس مال موجود ہو،اوراگر میت کے پس ماندگان میں ایسا کوئی شخص نہ ہو جس پر اس کا خرچہ واجب ہوتا ہے یا ایسا کوئی فرد موجود ہو، لیکن وہ خود اتنا غریب ہو کہ یہ خرچہ برداشت نہیں کرسکتا تو خاندان کے مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ یہ اخراجات اپنے ذمے لے لیں  ۔

صورتِ مسئولہ میں میت کمیٹی کے قیام میں مندرجہ ذیل شرعاً کئی قباحتیں ہیں،جس کی وجہ سے میت کمیٹی قائم کرناازروئے شرع درست نہیں ہے،اوران سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

(1)کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، چاہے امیر ہو یا غریب،چھوٹاہویابڑا ہر ماہ ایک مخصوص رقم (200روپے)سالانہ کمیٹی میں جمع کرے،اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو اُسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات(میت کی تجہیزوتکفین کا خرچہ) فراہم نہیں کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمیٹی کی بنیاد ’’امدادِ باہمی‘‘ پر نہیں، بلکہ اس کا مقصد ہرممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات  فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ واضح طور پر قمار (جوا)کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

(2)کمیٹی کے ممبران میں سے بعض اوقات غریب و نادارلوگ بھی ہوتے ہیں، جو اتنی وسعت واستطاعت نہیں رکھتے کہ ماہانہ سو روپے بھی ادا کرسکیں، لیکن خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں طیبِ نفس (خوش دلی)مفقود ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے لیے حلال طیب نہیں ہوتا، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے صرف اس کی دلی خوشی اور رضامندی کی صورت میں حلال ہے۔

(3) بسااوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے ہم دردی اور احسان کی بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا جاتا ہے، کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی سالانہ فیس نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کے باوجود اُنہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت کے غمگین موقع پر اُسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،لہذااس طرح کی کمیٹی قائم کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔

 البتہ اگرمندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئےاس طرح کی کمیٹی قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخود چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے توشرعاً اس کی گنجائش ہے،پھر یہ کمیٹی خاندان کے لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار ، غریب و نادار بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے، ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اگریہ کمیٹی خاندان کے کسی فرد کی موت کے بعد اس کی تجہیز و تکفین پر آنے والے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے تو یہ درست ہے۔

الدرالمختارمیں ہے:

"( یبدأ من ترکة المیت)... (بتجهیزه)  یعم التکفین (من غیر تقتیر ولا تبذیر ) ککفن السنة أو قدر ما کان یلبسه في حیاته."

( کتاب الفرائض،ج: 6،ص:759، ط : سعید)

الدرمع الرد میں ہے:

 "( وکفن من لا مال له علٰی من تجب علیه نفقته) فإن تعددوا فعلی قدر میراثهم."

"(قوله: فعلی قدر میراثهم ) کما کانت النفقة واجبة علیهم فتح، أی فإنها علی قدر المیراث فلو له أخ لأم وأخ شقیق فعلی الأول السدس والباقي علی الشقیق. أقول: ومقتضی اعتبار الکفن بالنفقة أنه لو کان له ابن وبنت کان علیهما سویة کالنفقة إذ لایعتبر المیراث في النفقة الواجبة علی الفرع لأصله ولذا لو کان له ابن مسلم وابن کافر فهي علیهما ومقتضاه أیضاً أنه لو کان للمیت أب وابن کفنه الابن دون الأب کما في النفقة علی التفاصیل الآتیة في بابها إن شاء اللّٰه تعالی."

( کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج: 2،ص : 205 ، 206 ط : سعید)

وفیہ ایضاً: 

" ( واختلف في الزوج والفتوی علی وجوب کفنها علیه ) عند الثاني ( وإن ترکت مالاً) خانیة، ورجحه في البحر بأنه الظاهر؛ لأنه ککسوتها. و في الرد: مطلب في کفن الزوجة علی الزوج. (قوله:واختلف في الزوج) أي وجوب کفن زوجته علیه. (قوله: عند الثاني ) أي أبي یوسف، وأما عند محمد فلایلزمه لانقطاع الزوجیة بالموت. وفي البحر عن المجتبٰی: أنه لا روایة عن أبي حنیفة لکن ذکر في شرح المنیة عن شرح السراجیة لمصنفها أن قول أبي حنیفة کقول أبي یوسف. (قوله: وإن ترکت مالاً الخ ) اعلم أنه اختلفت العبارات في تحریر قول أبی یوسف ، ففي الخانیة و الخلاصة و الظهیریة: أنه یلزمه کفنها وإن ترکت مالاً، وعلیه الفتوی. وفي المحیط و التجنیس و الواقعات و شرح المجمع لمصنفه: إذا لم یکن لها مال فکفنها علی الزوج، وعلیه الفتوی. وفي شرح المجمع لمصنفه: إذا ماتت ولا مال لها فعلی الزوج المسراه. ومثله في الأحکام عن المبتغی بزیادة: وعلیه الفتوی."

(کتاب الصلاۃ ، باب الجنائز ج : 2 ص : 206 ط : سعید)

وفیہ ایضاً: 

"( وإن لم یکن ثمة من تجب علیه نفقته ففي بیت المال فإن لم یکن ) بیت المال معموراً أو منتظماً (فعلی المسلمین تکفینه ) فإن لم یقدروا سألوا الناس له ثوباً فإن فضل شیء رد للمصدق إن علم وإلا کفن به مثله وإلا تصدق به، مجتبی. وظاهره أنه لایجب علیهم إلا سؤال کفن الضرورة لا الکفایة ولو کان في مکان لیس فیه إلا واحد وذلک الواحد لیس له إلا ثوب لایلزمه تکفینه به. و في الرد: (قوله:فإن لم یکن بیت المال معموراً ) أی بأن لم یکن فیه شيء أو منتظماً أي مستقیمًا بأن کان عامراً ولایصرف مصارفه ط، (قوله: فعلی المسلمین ) أي العالمین به وهو فرض کفایة یأثم بترکه جمیع من علم به، ط ، (قوله: فإن لم یقدروا ) أي من علم منهم بأن کانوا فقراء، (قوله: وإلا کفن به مثله ) هذا لم یذکره في المجتبی، بل زاده علیه في البحر عن التنجیس و الواقعات، قلت: وفي مختارات النوازل لصاحب الهدایة: فقیر مات فجمع من الناس الدراہم وکفنون وفضل شیء إن عرف صاحبه یرد علیه وإلا یصرف إلى کفن فقیر آخر أو یتصدق به."

( کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج : 2 ص : 206 ط:سعید)

وفیہ ایضاً: 

"ثم اعلم أن الواجب عليه تكفينها وتجهيزها الشرعيان من كفن السنة أو الكفاية وحنوط وأجرة غسل وحمل ودفن دون ما ابتدع في زماننا من مهللين وقراء ومغنين وطعام ثلاثة أيام ونحو ذلك، ومن فعل ذلك بدون رضا بقية الورثة البالغين يضمنه في ماله."

(كتاب الصلاة ، باب الجنائز ج : 2 ص : 206 ط : سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں