بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ غیر سودی بینک میں اکاؤنٹ کھلوانا اور نفع صدقہ کرنا


سوال

 میرا سوال اسلامک بینکنگ کے بارے میں ہے، جیسا کہ میزان بینک اور بینک اسلامی وغیرہ۔ میں نے بہُت سے علماء کی ویڈیو کلپس اور فتوے سنے ہیں جن میں وہ میزان بینک اور دیگر اسلامی بینکوں میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوا کر اس سے منافع لینے کو حلال قرار دیتے ہیں۔ میں ایک طالب علم ہوں اور بنک اکاؤنٹ کھلوانا ضرورت بن چکی ہے؛  لہٰذا آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟  کیا میں میزان بنک یا دیگر اسلامی بینکس سے منافع لے سکتا ہوں؟ کافی تحقیق کے باوجود میرا دل مطمئن نہیں ہورہا اور ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ بھی سود ہی نہ ہو اسلامی بینک کے نام پر۔ اور کیا یہ ممکن ہے کہ منافع  لے کر خود استعمال کرنے کی بجائے غریبوں کو دے دیا جائے؟ 

جواب

مروجہ غیر سودی بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات درحقیقت ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان سے بھی  تمویلی معاملات کرنا جائز نہیں ہے، ضرورت پر صرف ایسا اکاؤنٹ استعمال کیا جاسکتا ہے  جس میں منافع نہ ملتا ہو ( مثلا کرنٹ اکاؤنٹ یا لاکرز وغیرہ)۔

مروجہ اسلامی بینکاری کوسودی نظام کاحصہ قراردینے اورعدم جوازکی بنیادی طورپردووجوہات ہیں:

1۔مروجہ اسلامی بینکاری کے لیے جوفقہی بنیادیں جن شرائط کے ساتھ فراہم کی گئی تھیں عملی طورپرمروجہ اسلامی بینکاری کانظام ان فراہم کردہ بنیادوں پرنہیں چل رہا، جس کی وجہ سے روایتی بینکاری اورمروجہ اسلامی بینکاری میں کوئی فرق اورخاص امتیاز نہیں رہا۔

2۔دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ جن فقہی بنیادوں پرمذکورہ نظام کوقائم کیاگیاوہ بنیادیں اوراصطلاحات بھی سقم سے خالی نہیں،کئی فقہی اصطلاحات میں قطع وبریدکی گئی،  ضعیف اور مرجوح اقوال پراعتماد و انحصار کیا گیا، بغیرضرورت مذہب غیر کی جانب جانے کو مباح سمجھاگیا وغیرہ۔

نیز  مذکورہ مسئلہ میں عدمِ جواز کی رائے کا دلائل کے اعتبار سے قوی ہونا، اس کا  حنفیہ کے اصولوں کے مطابق ہونا نیز حرمت اور جواز کے اختلاف کے موقع پر احتیاط کے پیشِ نظر حرمت کے پہلو پر عمل کرنا ہی راجح ہے۔

باقی  اس نیت سے سود  اور حرام رقم کمانا یا وصول کرنا  کہ اس کو خود استعمال نہیں کریں گے، بلکہ غریبوں  کا تعاون اور مدد کریں  گے، شرعاً جائز نہیں ہے،  ایسے لوگ  حرام  کا ارتکاب کرکے خود تو گناہ گارہوتے ہیں اورغریبوں کادنیوی  فائدہ کرتے ہیں، یہ بڑی نادانی ہے کہ انسان اپنا دینی نقصان کرکے دوسروں کابھلاکرے اور دوسروں کے دنیوی فائدے کے لیے اپنی آخرت بربادکرے۔

حرام  رقم غلطی سے ملکیت میں آگئی ہوتو اسے صدقہ کرنا لازم ہے، مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ صدقہ کی نیت سے انسان حرام کماتا رہے،مشرکینِ مکہ سخت  قحط کے زمانے میں جواکھیلتے تھے اورجیتی ہوئی اشیاءخود استعمال میں نہیں لاتے تھے، بلکہ فقیروں پر صدقہ کردیا کرتے تھے، مگر اس کے باوجود ان کاعمل ناجائز اورحرام ہونے کی وجہ سے اس کی مذمت کی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ صدقہ اور لوگوں کی فلاح وبہبود کی نیت سےحرام مال کمانے کی اجازت نہیں،  جیساکہ توبہ کی نیت سے گناہ کی اجازت نہیں  ہے اوراس وجہ سے بدپرہیزی کرنا معقول نہیں کہ دواموجود ہے۔

مروجہ اسلامی بینک کاری سے متعلق تفصیل کے لیے درج ذیل دوکتابوں کامطالعہ مفید ہوگا:

1: "مروجہ اسلامی بینکاری" شائع کردہ مکتبہ بینات، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

2: "غیرسودی بینکاری"، ایک منصفانہ علمی جائزہ از مفتی احمدممتاز صاحب۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں