بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ برقعہ کے بجائے بڑی چادر سے پردہ کرنا


سوال

پردے کے لیے برقعہ ضروری ہے؟اور اگر خاتون گرمی کی وجہ سے برقعہ نہ پہن سکیں اور چادر سے بدن کو ڈھانپ لیں تو کیا یہ جائز ہے؟اور شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بھی چادر سے ہی پردہ کریں تو جائز ہے؟

جواب

عورت چھپی ہوئی اور پوشیدہ رہنے کی چیز ہے، اس کے بارے میں شریعت میں حکم ہے کہ وہ اپنے گھر ہی میں رہے اور اپنے آپ کو چار دیواری تک محدود رکھے، البتہ ضرورتِ شرعی یا طبعی کے مواقع میں عورت کے لیے گھر سے باہر کسی بڑی چادر یا اس کے قائم مقام برقعہ سے اپنے پورے جسم کو ڈھانپ کر نکلنے کی اجازت ہے، نیز عورت پر اپنے  پورے جسم کے ساتھ ساتھ ، چہرے  اور ہاتھوں کو بھی ڈھانپنا ضروری ہے، باقی  جسم کو چھپانے کے لیے شریعت نے کوئی خاص طریقہ یا کپڑا یا برقعہ کا نمونہ متعین نہیں کیا، لہذا جو چادر یا برقعہ عورت پہنے، اس میں درج ذیل چیزیں ضروری ہیں:

1۔  برقعہ یا چادر ایسی باریک یا چست  نہ ہو جس سے اندر کے اعضاء ظاہر ہونے لگیں او رجسم کی ساخت واضح ہو۔

2۔ ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے والی عورتیں اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ جو چادر یا برقعہ استعمال کریں وہ ایسا خوب صورت اور عمدہ نہ ہو کہ اس بنا پر لوگوں کو ان کی طرف نظریں اٹھانے کا موقع ملے۔ بلکہ عام معمولی سے برقعہ میں نکلیں۔

3۔۔ کسی بھی قسم کی زیب و زینت اور مہکنے والی خوش بو   لگاکر باہر نکلنے سے سے پوری طرح بچنے کا اہتمام کیا جائے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا}."[الأحزاب: ۵۹]

روح المعاني ميں ہے:

"وقال ابن عباس وقتادة: تلوي الجلباب فوق الجبين وتشده ثم تعطفه على الأنف وإن ظهرت عيناها لكن تستر الصدر ومعظم الوجه، وفي رواية أخرى عن الحبر رواها ابن جرير، وابن أبي حاتم وابن مردويه تغطي وجهها من فوق رأسها بالجلباب وتبدي عيناً واحدةً".

( روح المعاني: سورة الأحزاب، 11/ 264 ط: دار الكتب العلمية بيروت)

 أحکام القرآن للمفتي شفيع رحمه الله  میں ہے:

"ولباسها وإن کان ملتزقًا ببدنها أو رقیقا فالنظر من ورائها کالنظر إلی بدنها والنظر إلی العورة لا یجوز إلا للضرورة․ بزازیة علی ہامش الهندیة:(6/ 370)  قلت: وقد عمت به البلوی في بلادنا من لبس الثیاب الملتزقة ببدنها والرقیقة وهي لا تجوز عند المحارم أیضًا غیر الزوج فکیف بالأجانب والناس عنه غافلون."

(أحکام القرآن ، 3/ 383، ط: ادارة  اشرف اتحقيق)

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن دحية بن خليفة قال: أتى النبي صلى الله عليه وسلم بقباطي فأعطاني منها قبطية فقال: اصدعها صدعين فاقطع أحدهما قميصا وأعط الآخر امرأتك تختمر به . فلما أدبر قال: وأمر امرأتك أن ‌تجعل ‌تحته ثوبا لا يصفها . رواه أبو داود."

(‌‌كتاب اللباس، ‌‌الفصل الثاني، ج:2، ص:1249، رقم:4366، ط:المكتب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں