بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ ڈراپ شپنگ (Dropshipping) کا حکم


سوال

میرے  دوست کا  ایمازون (جو کہ ایک آن لائن   خریدوفروخت کی مارکیٹ ہے)  پر اکاؤنٹ  ہے،  جس پر وہ  امریکا میں ان اشیاء کو فروخت کرتا ہے جو اس کے قبضہ اور ملکیت میں نہیں ، جب کبھی گاہگ اسے   آرڈر دیتا ہے وہ سپلائر   کو مطلوبہ چیز کا آرڈر دے کر  گاہگ کو  بھیجنے  کو کہتا ہے، اس کے سپلائر مختلف ممالک میں ہوتے ہیں، وہ ڈراپ شپنگ (Dropshipping) کرتا ہے، کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟ یاد رہے کے دونوں گاہگ اور سپلائر  کے مابیں تجارتی  معاملہ میں آن لائن خرید وفروخت کی مارکیٹ ثالثی کا کردار ادا کرتی ہے اور  متعاقدین  کے درمیان  جو جھگڑے  ہوتےہیں اس کو بھی سلجھاتی ہے، البتہ اکثر اوقات  گاہگ کی طرف داری کرتی ہے، راہ نمائی  فرمائیں! 

جواب

واضح رہے کہ  شریعتِ  مطہرہ  میں جو  شرائط خرید و فروخت  کے لیے  مقرر کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک شرط یہ  بھی ہے کہ  منقولی اشیاء  میں بائع (بیچنے والا)  جس چیز کو  بیچ  رہا  ہو  وہ  اس کا مالک ہو  اور  اس پر  ٍخود یا وکیل کے ذریعہ قبضہ بھی  رکھتا ہو، اگر وہ ایسی چیز بیچتا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں تو بیع درست نہیں ہوتی، بلکہ باطل شمار ہوتی ہے۔

صورتِ مسئولہ  میں  سائل  نے  ڈراپ شپنگ کی جو صورت سوال میں ذکر کی ہے، یہ صورت شرعًا ناجائز ہے؛ کیوں کہ اس میں بیچنے  والا  وہ  چیز  خریدنے کے بعد اپنے قبضے میں لانے  سے پہلے ہی کسٹمر (خریدار)کو بیچ دیتا ہے جو بیع قبل القبض (یعنی کسی چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے فروخت کرنا) میں داخل ہے اور بیع قبل القبض شرعاً ناجائز ہے۔

اس کے جواز کی صورتیں مندرجہ ذیل ہیں:

1:  بیچنے والا، کسٹمر سے   باقاعدہ خرید و فروخت کا معاملہ کرنے کے بجائے  اس سے  فروخت کرنے کا وعدہ کرلے یعنی  مثلاً   کسٹمر سے یہ کہہ دے  یا اپنی ویب سائٹ پر  یہ لکھ کر لگادے کہ یہ چیز اتنی قیمت میں آپ کو ملے گی  اور اس وعدہ کے عوض پیشگی رقم لینا چاہے، تو اس کی بھی اجازت ہے، اور  اس کے بعد    سپلائر کمپنی سے مال خریدنے کے بعد اپنے قبضہ میں لے کر  کسٹمر  کو فروخت کردے، اور قبضہ کے لیے یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے  کہ سائل کا دوست  وہیں امریکا  وغیرہ میں سپلائر کمپنی کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو اپنا وکیل متعین کردے  اور وہ سائل کی طرف سے سپلائر کمپنی سے سامان  لے لے، اور اس کے بعد  کسٹمر تک پہنچادے یا کمپنی کو  کہہ دے  کہ یہ مال فلاں آدمی کو بھیج دیں۔

2:سائل کا دوست، سپلائر  كمپني کا کمیشن ایجنٹ بن جائے ، اور ہر پراڈکٹ اپنی کمیشن رقم یا فیصد میں متعین کرلے  تو اس صورت میں ویب سائٹ پر ان کی اشیاء لگاکر   باقاعدہ کسٹمر کو فروخت کرنا  اور سپلائر کمپنی سے  طے شدہ کمیشن لینا بھی جائز ہوگا، اور آرڈر کے بعد سپلائر کمپنی کا براہ راست کسٹمر  کو سامان پہنچادینا بھی کافی ہوگا۔

ترمذی میں ہے:

"عن حکیم بن حزام قال : أتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقلت : یأتیني الرجل یسألني من البیع ما لیس عندي أبتاع له من السوق ثم أبیعه؟ قال : ’’ لاتبع ما لیس عندك."

     فتاوی شامی میں ہے:

"إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح."

(5/ 58، کتاب البیوع، باب بیع الفاسد، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده «، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم."

(147/5، کتاب البیوع، ط:دار الکتب العلمیۃ)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض۔۔۔أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه  ورواه أحمد في مسنده وابن حبان."

( 511/6 ،کتاب البیوع، باب المرابحۃ و التولیہ، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں