بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ مشاعرہ کا حکم


سوال

مروجہ مشاعرہ ، جس میں نامحرم خواتین بھی آتی ہیں اور عشقیہ شاعری ہوتی ہے وغیرہ ، اس کا انتظام کرنا ، اس میں مالی یا جانی تعاون کرنا اور سننے کے  لیے اس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟ شریعتِ  مطہرہ کی روشنی میں صاف صاف باحوالہ جواب عنایت فرمایا جائے ، عین کرم ہوگا!

جواب

صورتِ مسئولہ میں مشاعرہ  کی مروجہ محفلیں جس میں مرد و زن کا اختلاط  اور  بے پردگی ہو، یا شاعری میں کسی زندہ متعین عورت یا لڑکوں کے اوصاف کا ذکر ہو جس سے جنسی میلان کا اندیشہ ہو یا شراب کی طرف رغبت دلانے والے مضامین ہوں یاشاعری میں انبیاء علیہم السلام و صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف کوئی بات ہو یا کسی مسلم یا غیر مسلم کی ناحق ہجو (مذمت) ہویا شاعری جھوٹ، بے جا فخر ، انساب پر طعن و تشنیع جیسے مضامین پر مشتمل ہو تو ایسی محافل کے انتظام میں مالی یا جانی تعاون کرنا اور ان میں شرکت کرنا ناجائز ہے۔

البتہ اگر مشاعرہ کی کوئی محفل درج بالا قباحتوں سے خالی ہو اور اس میں پڑھے جانے والے اشعار دلچسپ نکات، ادبی لطائف اور عمدہ تشبیہات پر مشتمل ہو گو اس میں شعرا کے معروف طریقے کے مطابق صنعتِ تشبیب (یعنی قصیدے کے ابتدا میں عاشقانہ مضامین) سے کام لیا گیا ہو تو ایسی محفلوں کے انتظام اور ان میں شرکت کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ شعر و شاعری میں اس قدر انہماک نہ ہو کہ دیگر حقوق اللہ و حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی ہونے لگے۔

نیز اگر ایسے حکیمانہ اشعار  کہے جائیں جن  میں اللہ تعالی کی وحدانیت، اس کی حمد و ثنا  ، نبی اکرم ﷺ کی تعریف و توصیف یا اس کے علاوہ  دیگر اصلاحی یا تعمیری  مضامین ہوں تو یہ  شاعری خودثواب کاباعث ہے،اسی قسم کے اشعار سے متعلق نبی پاک ﷺ کا ارشاد صحیح بخاری میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت سے منقول ہے کہ بعض شعر (اپنے مضمون کے لحاظ سے ) سراسر حکمت ہوتے ہیں۔

صحیح بخاری میں ہے:

"6145 - حدثنا ‌أبو اليمان: أخبرنا ‌شعيب، عن ‌الزهري قال: أخبرني ‌أبو بكر بن عبد الرحمن: أن ‌مروان بن الحكم أخبره: أن ‌عبد الرحمن بن الأسود بن عبد يغوث أخبره: أن ‌أبي بن كعب أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن من الشعر حكمة".

(‌‌کتاب الأدب،باب ما يجوز من الشعر والرجز والحداء وما يكره منه، 8/ 34،  ط :المطبعة الكبرى الأميرية)

الدر المختار میں ہے:

"وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره اهـ".

وفي الرد:

"(قوله تكره) أي تكره قراءتها فكيف التغني بها. قال في التتارخانية: قراءة الأشعار إن لم يكن فيها ذكر الفسق والغلام ونحوه لا تكره.

وفي الظهيرية: قيل معنى الكراهة في الشعر أن يشغل الإنسان عن الذكر والقراءة وإلا فلا بأس به اهـ.

وقال في تبيين المحارم: واعلم أن ما كان حراما من الشعر ما فيه فحش أو هجو مسلم أو كذب على الله تعالى أو رسوله صلى الله عليه وسلم أو على الصحابة أو تزكية النفس أو الكذب أو التفاخر المذموم، أو القدح في الأنساب، وكذا ما فيه وصف أمرد أو امرأة بعينها إذا كانا حيين، فإنه لا يجوز وصف امرأة معينة حية ولا وصف أمرد معين حي حسن الوجه بين يدي الرجال ولا في نفسه، وأما وصف الميتة أو غير المعينة فلا بأس وكذا الحكم في الأمرد ولا وصف الخمر المهيج إليها والديريات والحانات والهجاء ولو لذمي كذا في ابن الهمام والزيلعي".

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، 6/ 350، ط: سعيد)

فتاویٰ شامی کے مقدمہ میں ہے:

"أقول: وعلى هذا يمكن أن يكون إشارة إلى أن المكروه منه ما داوم عليه وجعله صناعة له حتى غلب عليه وأشغله عن ذكر الله تعالى وعن العلوم الشرعية. وبه فسر الحديث المتفق عليه وهو قوله - صلى الله عليه وسلم - «لأن يمتلئ جوف أحدكم قيحا خير من أن يمتلئ شعرا» ، فاليسير من ذلك لا بأس به إذا قصد به إظهار النكات واللطافات والتشابيه الفائقة والمعاني الرائقة، وإن كان في وصف الخدود والقدود، فإن علماء البديع قد استشهدوا من ذلك بأشعار المولدين وغيرهم لهذا القصد. وقد ذكر المحقق ابن الهمام في إشهادات فتح القدير أن المحرم منه ما كان في اللفظ ما لا يحل كصفة الذكور والمرأة المعينة الحية ووصف الخمر المهيج إليها والحانات والهجاء لمسلم أو ذمي إذا أراد المتكلم هجاءه، لا إذا أراد إنشاد الشعر للاستشهاد به أو ليعلم فصاحته وبلاغته".

(مقدمة، مطلب في الكلام على إنشاد الشعر، 1/ 46، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں