بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مراقبہ کے رائج مختلف طریقے کیا سنت سے ثابت ہیں؟


سوال

 مراقبہ کرنے کے جو مختلف مشائخ کے ہاں طریقے رائج ہیں، کیا یہ عین سنتِ رسول یا اثرِ  صحابہ سے ثابت ہیں؟ اگر نہیں تو  کیا یہ  بدعت  نہیں سمجھے   جائیں گے؟

جواب

1- سب سے پہلے تو بدعت کا مفہوم سمجھ لینا ضروری ہے، لغوی اعتبار سے تو "بدعت" ہر نو ایجاد چیز کو کہتے ہیں، اور اس معنی کے اعتبار سے اچھی یا بری، دینی یا دنیاوی، ہر وہ بات یا عمل جو نو ایجاد ہو، وہ بدعت کہلاسکتاہے، لیکن شریعت میں بدعتِ مذمومہ سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے  جسے دین یا ثواب سمجھ کر اختیار کیا جائے، اور اس کی اصل (ماخذ) دین میں موجود نہ ہو، نیز  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے ادوار  میں  اس کی ضرورت اور امکان کے باوجود انہوں نے اسے اختیار نہ کیا ہو،  اور ما بعد  کے ادوار میں اسے دین کا حصہ یا ضروری سمجھ  کر یا زیادہ ثواب کا باعث سمجھ کر کیا جائے اور نہ کرنے والوں کو ملامت  کی جائے یا برا سمجھا جائے۔

2- دوسری بات واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے تقوی یعنی باری تعالی کا ہر لمحہ لحاظ کرنے اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس رکھنے  ( جسے حدیثِ جبریل میں احسان سے تعبیر کیا گیا ہے) کا قرآنِ مجید میں جابجا حکم دیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تقوی اختیار کرنے کی تعلیم فرمائی ہے،   پس اس کیفیت کے حصول کے  لیے مشائخِ عظام نے مختلف تجربات کیے ہیں، اور اپنے تجربات کی بنیاد پر جس طریقہ کو زیادہ مفید و معین پایا اس کی تعلیم فرمائی ہے، البتہ ان طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کو سنت  اور بقیہ کو غیر سنت  قرار دینا درست نہیں، اور نہ ہی اہلِ تصوف میں سے کسی اہلِ حق نے انہیں عینِ سنت کہا ہے، بلکہ  حقیقت  یہی ہے کہ یہ سب طریقے مجربات میں سے ہیں، اور بطورِ علاج اختیار  کیے گئے ہیں، اور جو چیز مقصود (تقوی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے استحضار و احساس) کے حصول کے لیے وسیلے کے طور پر اختیار کی جائے اسے  ناجائز یا بدعت قرار دینا  بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ اولًا ان امور سے جو مقصود ہے اس کا حکم قرآنِ مجید اور احادیث میں حکم موجود ہے، جیسے علم حاصل کرنے کا حکم اور فضائل نصوص میں موجود ہیں، اب علم کے حصول کے لیے موجودہ دور میں اس کے مختلف نظام رائج ہیں، جن میں سے بہت سے عین سنت سے ثابت نہیں ہیں، لیکن حصولِ علم کا وسیلہ اور ذریعہ ہونے کی وجہ سے علم کے فضائل ان پر بھی ان شاء اللہ حاصل ہوں گے۔ نیز اس  لیے بھی ان مراقبوں وغیرہ کو بدعت کہنا درست نہیں  ہے کہ  اہلِ تصوف انہیں سنت یا عبادت یا ہر مسلمان کے لیے لازم نہیں سمجھتے، اور جو لوگ کسی سلسلے میں بیعت نہ ہوں انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں کم مرتبہ یا لائقِ ملامت نہیں سمجھتے۔

زبدة  الفقہ میں ہے:

"کفر اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ بدعت ہے۔ بدعت کی تعریف:  "بدعت اُن چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شرعیت سے ثابت نہ ہو، اورشرع شریف کی چاروں دلیلوں یعنی کتاب اللّٰہ وسنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم و اجماع امت و قیاس مجتہدین سے ثبوت نہ ملےاور اس کو دین کا کام سمجھ کر کیا جائے یا چھوڑا جائے۔"

( کتاب الایمان، بدعت کا بیان، ص: ٦٨، ط: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز)

بہشتی زیور میں حضرت  مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"دل سے ہر وقت دھیان رکھے کہ اللہ تعالی کو میرے سب حالوں کی خبر ہے، ظاہر کی بھی اور دل کی بھی، اگر برا کام ہوگا یا برا خیال لایاجائے گا، شاید اللہ تعالی دنیا میں یا آخرت میں سزا دیں۔ دوسرے عبادت کے وقت یہ دھیان جمائے کہ وہ میری عبادت کو دیکھ رہے ہیں، اچھی طرح بجالانا چاہیے۔ 

طریقہ اس کا یہی ہے کہ کثرت سے ہر وقت یہ سوچا کرے، تھوڑے دنوں میں اس کا دھیان بندھ جائے گا، پھر ان شاء اللہ تعالی اس سے کوئی بات اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف نہ ہوگی۔"

( باب: ۴۲، مراقبہ یعنی دل سے خدا کا دھیان رکھنا اور اس کا طریقہ، ۷ / ۱۸، ط: دار الاشاعت)

مزید تفصیل کے  لیے حافظ ابن  قیم الجوزیہ  کی تصنیف : "مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين( فصل منزلة المراقبة، ٢ / ٦٤، ط: دار الكتاب العربي - بيروت)  اور مولانا سید زوّار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ کی کتاب "عمدۃ السلوک" کا مطالعہ کرلیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں