بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مراہق کے ذریعہ زکوۃ کی تملیک کروانا


سوال

کیا  قریب البلوغ یا چھوٹے بچےکے ذریعے زکاۃ کی تملیک کرا سکتے ہیں؟

جواب

 اگر بچہ فقیر اور سمجھ دار اور تمیز والا ہو تو اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، لہذا ایسا بچہ اگر زکوۃ کی رقم وصول کرکے کسی کارِ خیر کے لیے دے دے تو زکوۃ ادا ہوجائے گی اور تملیک بھی درست ہوگی۔

اوراگر بچہ بہت چھوٹا اور ناسمجھ ہے تو  اس کی طرف سے قبضہ کرلینے سے زکاۃ ادا  نہیں ہوگی، نہ ہی تملیک درست ہوگی، کیوں کہ  ایسے ناسمجھ بچوں کاخود قبضہ کرنا معتبر نہیں ہے،اسی طرح   اگر بچے کا والد مال دار ہے تو ایسے بچے  کو زکاۃ دینا بھی جائز نہیں ہے۔

یہ یاد رہے کہ کسی شدید ضرورت کے بغیر حیلہ تملیک کرنا مکروہ ہے،  اور اگر شدید ضرورت ہو تو تملیک کی حقیقت اور شرائط ملحوظ رکھتے ہوئے تملیک کا حیلہ کرنے کی گنجائش ہوگی، اس کا طریقہ یہ ہے کہ زکاۃ کی رقم کسی غریب کو مالک بنا کر دے دیں، اور اسے بتادیں کہ فلاں مصرف میں ضرورت ہے، اس کے بعد اگر وہ اپنی خوشی سے دے دیتا ہے تو اس رقم کا استعمال جائز ہوگا۔ اور اس کے لیے تحریری اجازت ضروری نہیں ہے۔  

"و لو قبض الصغیر وهو مراهق جاز، وکذا لو کان یعقل القبض."

  (الفتاویٰ الهندیة ۱/۱۹۰)

"ویصرف إلی مراهق یعقل القبض."

(شامي / باب المصرف ۳/۲۹۱ زکریا)

''سئل عبد الکریم عمن دفع زکاة ماله إلی صبي؟ قال: إن کان مراهقاً یعقل الأخذ یجوز، وإلا فلا. وفي الخانیة: وکذا لو کان الصبي یعقل القبض بأن کان لایرمي به ولایخدع عنه."

(الفتاویٰ التاتارخانیة ، ۳/۲۱۱)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200462

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں