بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتدی غلطی سے امام کے بائیں جانب کھڑا ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر دو آدمی نماز پڑھ رہے ہیں، ایک مقتدی ہے اور ایک امام تو اگر مقتدی امام کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تو نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ قصدا ایسے نہیں کیا، بھولے سے ایسے ہو گیا۔

جواب

باجماعت  نمازکے لیے یہ ضروری ہے کہ امام مقتدی سے آگے کھڑا ہو، اگر مقتدی ایک ہو تو وہ امام کے دائیں طرف چار انگلیوں کے بقدر پیچھے ہو کر کھڑا ہو، اور اگر مقتدی زیادہ ہوں تو وہ امام سے پچھلی صف میں کھڑے ہوں، لبتہ اگر کہیں بھولے سے مقتدی امام کے دائیں جانب کھڑا ہونے کے بجائے بائیں جانب کھڑا ہو جائے تو بھی نماز ہو جائے گی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق   میں ہے:

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف، ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك، وينبغي أن يكملوا ما يلي الإمام من الصفوف، ثم ما يلي ما يليه، وهلمّ جرًّا، وإذا استوى جانبا الإمام فإنه يقوم الجائي عن يمينه، وإن ترجح اليمين فإنه يقوم عن يساره، وإن وجد في الصف فرجه سدّها، وإلا فينتظر حتى يجيء آخر كما قدمناه، وفي فتح القدير: وروى أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنه قال: أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيديكم (بأيدي) إخوانكم لاتذروا فرجات للشيطان، من وصل صفًّا وصله الله، ومن قطع صفًّا قطعه الله. وروى البزار بإسناد حسن عنه من سدّ فرجةً في الصفّ غفر له. وفي أبي داود عنه: قال: خياركم ألينكم مناكب في الصلاة".

وفیہ ایضا :

"وذكر الإسبيجابي أنه لو كان معه رجلان فإمامهم بالخيار إن شاء تقدم، وإن شاء أقام فيما بينهما، ولو كانوا جماعةً فينبغي للإمام أن يتقدم، ولو لم يتقدم إلا أنه أقام على ميمنة الصف أو على ميسرته أو قام في وسط الصف فإنه يجوز ويكره". 

(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ، ج: ۱، صفحہ:۳۷۴ و۳۷۵، ط:دار المعرفة، بيروت)

  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101862

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں