بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتدی کے لئےسرّی نماز میں قراءت کرنے کا حکم


سوال

 میں نے ایک مولانا صاحب  کا بیان سنا، جس  میں وہ امام کے پیچھے سری اور جہری رکعت نماز کے بارےمیں بیان کررہا تھا کہ سری نماز امام کے پیچھے پڑھتے وقت بھی سورت فاتحہ پڑھنا ہے اور اس حوالے سے دیکھا جایے تو امام کے پیچھے مقتدی تمام کلمات پڑھتا ہے رکوع میں سجدے میں اور اور التحیات دورود شریف بھی تو سورت فاتحہ بھی پڑھا جایے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے کسی قسم کی قراءت کرنا خواہ وہ سورہ فاتحہ ہو یا کوئی اور سورت، جائز نہیں، نیز اس حکم میں سری اور جہری نمازوں میں کوئی فرق نہیں؛ کیوں کہ امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہے،  یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی مقتدی رکوع میں امام کو پا لے تو بالاتفاق اس کی وہ رکعت ادا ہو جاتی ہے،حالانکہ اس نے تو امام کے ساتھ قرات نہیں کی ، بلکہ امام کی قرات اس کے  ئے کافی ہو گئی ،اسی طرح نماز خواہ سری ہو یا جہری امام کی قرأت تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہوگی، مقتدی کے لئے قرات کرنا جائز نہیں۔

نیز   مقتدی کو صرف قراءت کے موقع پر خاموش رہنے کا حکم ہے،  قراءت کے علاوہ تکبیر اورتسبیح کے مواقع میں مقتدی کو  خاموش رہنے کا حکم نہیں،   بلکہ تکبیرِ تحریمہ تو مقتدی پر بھی کہنا فرض ہے،  اور تشہد اور سلام مقتدی پر بھی واجب ہے، اور ثناء، درود شریف اور دعائیں نیز  دیگر مواقع  میں تکبیرات اور رکوع وسجدہ  میں تسبیح  اور قومہ میں ربنالك الحمد کہنا مقتدی کے لیے بھی مسنون ہے۔

قرآن مجید میں باری تعالٰی کا ارشاد ہے:

{وَإِذَا قُرِيَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَانْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ}

ترجمہ:اور  جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگایا کرو اور خاموش رہا کرو، امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔

(سورۃ الاعراف، رقم الآیۃ:204، ترجمہ: بیان القرآن)

حدیث شریف  میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : من كان له إمام فقراءة الامام له قراءة".

(شرح معاني الآثار  للامام الطحاوي، باب القراءة خلف الامام، رقم الحديث:1192، ج:1، ص:217، ط:دارالكتب العلمية)

ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر وہ شخص جس کا امام ہو تو امام کی قرأت ہی اس کی قرأت ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الإمام ضامن، والمؤذن مؤتمن، اللهم أرشد الأئمة، واغفر للمؤذنين".

(سنن الترمذي، باب ما جاء أن الإمام ضامن، والمؤذن مؤتمن، رقم الحديث:153 ج:1، ص:282، ط:دارالغرب الاسلامى)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: امام ضامن ہے، اور مؤذن امانت دار ہے، اللہ ائمہ کو ہدایت پر رکھ، اور مؤذنوں کی مغفرت فرما۔

فتاویٰ شامی(الدرّ المختار وردّالمحتار) میں ہے:

"(والمؤتم لا يقرأ مطلقا) ولا الفاتحة في السرية اتفاقا، وما نسب لمحمد ضعيف كما بسطه الكمال (فإن قرأ كره تحريما) وتصح في الأصح. وفي درر البحار عن مبسوط خواهر زاده أنها تفسد ويكون فاسقا، وهو مروي عن عدة من الصحابة فالمنع أحوط (بل يستمع) إذا جهر (وينصت) إذا أسر «لقول أبي هريرة - رضي الله عنه - كنا نقرأ خلف الإمام فنزل - {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} [الأعراف: 204]-» (وإن) وصلية (قرأ الإمام آية ترغيب أو ترهيب) وكذا الإمام لا يشتغل بغير القرآن، وما ورد حمل على النفل منفردا كما مر (كذا الخطبة) فلا يأتي بما يفوت الاستماع ولو كتابة أو رد سلام (وإن صلى الخطيب على النبي - صلى الله عليه وسلم - إلا إذا قرأ - {صلوا عليه} [الأحزاب: 56]- فيصلي المستمع سرا) بنفسه وينصت بلسانه عملا بأمري - {صلوا} [الأحزاب: 56]- {وأنصتوا} [الأعراف: 204]- 

(قوله ولا الفاتحة) بالنصب معطوف على محذوف تقديره لا غير الفاتحة ولا الفاتحة، وقوله في السرية يعلم منه نفي القراءة في الجهرية بالأولى، والمراد التعريض، بخلاف الإمام الشافعي ويرد ما نسب لمحمد (قوله اتفاقا) أي بين أئمتنا الثلاثة. (قوله وما نسب لمحمد) أي من استحباب قراءة الفاتحة في السرية احتياطا (قوله كما بسطه الكمال) حاصله أن محمدا قال في كتابه الآثار: لا نرى القراءة خلف الإمام في شيء من الصلوات يجهر فيه أو يسر، ودعوى الاحتياط ممنوعة، بل الاحتياط ترك القراءة لأنه العمل بأقوى الدليلين. وقد روي الفساد بالقراءة عن عدة من الصحابة فأقواهما المنع (قوله أنها تفسد) هذا مقابل الأصح (قوله وهو) أي الفساد المفهوم من تفسد (قوله مروي عن عدة من الصحابة) قال في الخزائن: وفي الكافي: ومنع المؤتم من القراءة مأثور عن ثمانين نفرا من كبار الصحابة، منهم المرتضى والعبادلة وقد دون أهل الحديث أساميهم".

(کتاب الصلوۃ، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها، ج:1، ص:544، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں