( 1)کیا مقتدی کی اپنے امام سے سبقت کرنے میں کوئی مقدار متعین ہے ؟ ایک دوست سے سنا ہے،کہ مقتدی اگر ایک رکن کی مقدار اپنے امام سے سبقت کرجائے تو مقتدی کی نماز فاسد ہوجائے گی ،کیا یہ بات درست ہے؟
(2 )بعض دفعہ خواتین نماز پڑھتے وقت بچوں کی شرارت کی وجہ سے نماز میں قرأت جہرًا پڑھ لیتی ہیں ،اس سے نماز پر کوئی اثر پڑتی ہے یا نہیں؟
(1)مقتدی اگر ایک رکن کی مقدار اپنے امام سے سبقت کرجائےاور امام کے ساتھ یا امام کے اس رکن کو ادا کرنے کے بعد دوبارہ وہ رکن ادا نہ کرے تو مقتدی کی نماز فاسد ہوجائے گی ۔
(2) خواتین کانماز پڑھتے وقت بچوں کی شرارت کی وجہ سے نماز میں قرأت کو کچھ بلند آواز سے پڑھ لینا شرعًا پسندیدہ نہیں ہے ۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:
"و يفسدها "مسابقة المقتدي بركن لم يشاركه فيه إمامه" كما لو ركع ورفع رأسه قبل الإمام ولم يعده معه أو بعده."
( کتاب الصلوٰة،باب ما يفسد الصلاة ،337، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"ومسابقة المؤتم بركن لم يشاركه فيه إمامه كأن ركع ورفع رأسه قبل إمامه ولم يعده معه أو بعده."
قال ابن عابدین:
"(قوله ومسابقة المؤتم إلخ) داخل تحت قوله وترك ركن، وإنما ذكره لأنه أتى بالركن صورة ولكنه لم يعتد به لأجل المسابقة فافهم."
(کتاب الصلوٰة،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،630/1،ط: سعید)
فتح القدير میں ہے
"ولهذا قال عليه الصلاة والسلام «التسبيح للرجال والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل انتهى كلامه.وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام لسهوه إلى التصفيق."
(کتاب الصلوٰة،باب شروط الصلاة التي تتقدمها،1/260،ط:دار الفكر لبنان)
فتاوی شامی میں ہے:
"ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل."
(کتاب الصلوٰة،باب شروط الصلاة،مطلب في ستر العورة،1/406،ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144510102233
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن