بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتدی کا ثناء چھوڑنے کا حکم


سوال

مسجد گھر سے دور ہونے کی وجہ سے اکثر باجماعت نماز میں رکعت چھوٹ جاتی ہے، نماز میں شامل ہوتے وقت مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ رکعت پہلی ہے یا دوسری،  اکثر میں پہلی رکعت کو دوسری رکعت سمجھ بیٹھتا ہوں اور ثناء نہیں پڑھتا، پھر تشہد (دونوں سجدوں )کےبعد پتا چلتا ہے کہ وہ پہلی ہی رکعت تھی۔

اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔

جواب

نماز میں تکبیر تحریمہ کے بعد امام اور مقتدی دونوں کے لیے ثناء پڑھنا سنت ہے، اور اگر کوئی شخص امام کے نماز شروع کرنے کے بعد آکر نماز میں شامل ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع کردی ہو تو وہ ثناء نہ پڑھے، اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع نہیں کی، یا امام نے قراءت شروع کردی، لیکن  سری نماز ہونے کی وجہ سے بلند آواز سے نہیں کی، جیسا کہ ظہر اور عصر  کی نماز میں تو  بعد میں شامل ہونے والا ثناء پڑھ کر شامل ہوجائے، تاہم اگر کوئی شخص امام کے ساتھ پہلی رکعت میں شامل ہوجائے،اور دوسری رکعت سمجھتے ہوئے ثناء نہ پڑھے، تب بھی اس کی نماز درست ہوجائےگی، کیوں کہ نماز میں ثناء پڑھنا واجب نہیں ، بلکہ سنت ہے، اسی لیے ثناء نہ  پڑھنے کی صورت میں بھی نماز صحیح ہوگی، البتہ سائل کو چاہیے کہ نماز کے لیے گھر سے جلدی نکلا کرے؛ تاکہ تکبیرِ تحریمہ کی فضیلیت سے محروم نہ رہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لايأتي بالثناء، كذا في الخلاصة. هو الصحيح، كذا في التجنيس. وهو الأصح، هكذا في الوجيز للكردري. سواء كان قريباً أو بعيدًا أو لايسمع لصممه، هكذا في الخلاصة. فإذا قام إلى قضاء ما سبق يأتي بالثناء ويتعوذ للقراءة، كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة والظهيرية. وفي صلاة المخافتة يأتي به، هكذا في الخلاصة. ويسكت المؤتم عن الثناء إذا جهر الإمام هو الصحيح، كذا في التتارخانية في فصل ما يفعله المصلي في صلاته."

(کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس في الإمامة، الفصل السابع في المسبوق واللاحق، ج:1، ص:90،91، ط:دار الفكر بيروت)

وفیه أیضا:

"ولا يجب بترك التعوذ والبسملة في الأولى والثناء."

(کتاب الصلوٰۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق، الباب الثاني عشر في سجود السهو، ج:1، ص:126، ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں