بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتدیوں کا شرعی وجہ کی بناء پر امام سے ناراض ہونے کا حکم


سوال

اگر کسی امام سے اکثر لوگ اس کی غیر شرعی عادات کی وجہ سے  ناراض ہوں، مثلًا:  کثرت  سے مکمل  سیاہ  لباس کا زیب تن کرنا، مسجد  میں  عورتوں کا اجتماع کروانا،  (عورتیں مسجد  میں  بلند آواز سے پڑھتی ہیں)، اذان  کے فورًا  بعد آمین کہہ کر کلمہ طیبہ کا اضافہ کرنا،  وہ  بھی اسپیکر  میں، ان سے منع کرنے پر ان کے گھروں میں شکایت کر کے ان کے گھروں میں بد امنی کا سبب بننا،شرعی حکم کیا ہوگا؟

جواب

 سوال میں تحریر کردہ باتیں اگر واقعۃً صحیح ہیں اور ان پر معتبر گواہ بھی موجود ہیں تو  مذکور  افعال بدعات، یا اہلِ بدع سے تشبہ اور  دیگر مفاسد پر مبنی ہیں ؛لہذا  ان کی بنیاد پرلوگوں کی امام سے ناراضی درست  ہے، امام صاحب کو چاہیے کہ ان افعال کو ترک کریں ، اللہ سے توبہ و استغفار کریں اور مقتدیوں کی شکایت بھی دورکریں ۔ حدیث شریف کی رو سے  ایسے  امام صاحب کی نمازیں  قبول نہیں ہوتیں۔  

اگر مذکورہ امام ان کاموں سے باز آ جاتے ہیں، تو بہتر، ورنہ عزت کے ساتھ معزول کر کے دوسرے متقی پرہیز گار امام مقرر کر لیں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

وعن أبي أمامة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ثلاثة لا تجاوز صلاتهم آذانهم: العبد الآبق حتى يرجع، وامرأة باتت وزوجها عليها ساخط، وإمام قوم وهم له كارهون» ". رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب

(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك، أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ ج نمبر۳ ص نمبر ۸۶۵، دار الفکر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن ابن عمرو رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ثلاثة لا تقبل منهم صلاتهم: من تقدم قوما وهم له كارهون، ورجل أتى الصلاة دبارا والدبار: أن يأتيها بعد أن تفوته ورجل اعتبد محررة» " رواه أبو داود، وابن ماجه

(وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر ورجحه ابن حجر ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: {ولكن أكثرهم لا يعلمون} [الأنعام: 37]."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ ج نمبر۳ ص نمبر ۸۶۵، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں