بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتدی کو شک ہوجائے کہ وہ پوری جماعت میں شامل تھا یا ایک رکعت رہ گئی تھی؟


سوال

1۔اگر کوئی شخص جماعت  میں شریک ہو جاتا ہے،لیکن امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اس کو یاد نہیں ہوتا ہے کہ میں پوری  جماعت  میں شامل ہوا ہوں ،یا ایک رکعت بعد ،تو وہ کیا  طریقہ اختیار کرے؟

2۔اور اگر ساتھ میں کسی دائیں بائیں سے کوئی اٹھتا ہے تو ان کے حساب سے اٹھ کر اپنی  رکعت پورا کرتا ہے کہ یہ  بھی نہیں  پہنچا  ہے تو مجھے بھی اٹھنا چاہیے اور اس طرح وہ اپنی ایک رکعت پورا کرتا ہے تو یہ ٹھیک ہے؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں  اگر مذکورہ شخص کا یہ بھولنا (اس نے پوری نماز جماعت سے پڑھی ہے یا ایک رکعت رہ گئی ہے)پہلی مرتبہ ہے  یا کبھی کبھی شاذ ونادر ایسا ہو تا ہے تو  اسے نئے سرے سے نماز پڑھنا چاہیے۔

اور  اگر شک ہوتا رہتا ہے اور رکعتوں کی تعداد بھولتا رہتا ہے تو پھر غالب گمان پر عمل کرنا چاہیے، یعنی جتنی رکعتیں غالب گمان سے اس کو یاد پڑیں، اسی قدر رکعتوں کے بارے میں  یہ خیال کرے کہ پڑھ چکا ہے، اگر اس حساب سے تین ہوچکی ہیں تو مزید ایک رکعت پڑھ کر نماز مکمل کرے اور سجدہ سہو کرے، اور اگر اس کے حساب سے چار رکعت ہوچکی ہیں تو امام کے ساتھ ہی سلام پھیردے ۔

 اور اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو کمی کی جانب اختیار کرے مثلاً کسی کو تین یا چار رکعت میں شک ہوجائے اور یہ شک پہلی مرتبہ نہ ہوا ہو اور غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ تین رکعتیں شمار کرے اور ایک رکعت مزید پڑھ کر  نماز پوری کرے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرے۔

آخری دونوں صورتوں میں اگر سجدہ سہو کرنا بھول گیا  اور نماز کا وقت باقی ہے تو اس نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے، اور اگر نماز کا وقت گزرگیا ہو تو اب اعادہ کرنے کی تاکید کم ہے، البتہ اس نماز کا اعادہ کرلینا زیادہ بہتر ہے۔

2۔اگر مذکورہ شخص اپنے برابر والے نمازیوں کو دیکھ کر اندازہ کرے کہ میں نے پوری نماز پڑھی ہے یا ایک رکعت رہ گئی ہے اور اس حساب سے اس نے نماز پوری کر لی تو نماز صحیح ہوجائے گی ۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"(وإذا شك) في صلاته (من لم يكن ذلك) أي الشك (عادة له)، وقيل: من لم يشك في صلاة قط بعد بلوغه، وعليه أكثر المشايخ، بحر عن الخلاصة، (كم صلى استأنف) بعمل مناف وبالسلام قاعداً أولى؛ لأنه المحل (وإن كثر) شكه (عمل بغالب ظنه إن كان) له ظن للحرج (وإلا أخذ بالأقل)؛ لتيقنه. 

(قوله: من لم يكن ذلك عادة له) هذا قول شمس الأئمة السرخسي واختاره في البدائع، ونص في الذخيرة على أنه الأشبه. قال في الحلية: وهو كذلك. وقال فخر الإسلام: من لم يقع له في هذه الصلاة واختاره ابن الفضل.

(قوله: وقيل إلخ) ثمرة الخلاف تظهر فيما لو سها في صلاته أول مرة واستقبل، ثم لم يسه سنين ثم سها، فعلى قول السرخسي يستأنف؛ لأنه لم يكن من عادته وإنما حصل له مرة واحدة والعادة إنما هي من المعاودة أي والشرط أن لايكون معتاداً له قبل هذه الصلاة، وكذا على قول فخر الإسلام، خلافاً لما وقع في السراج من أنه يتحرى كما يتحرى على القول الثالث، كما في البحر. وفي عبارة النهر هنا سهو فاجتنبه.
(قوله: كم صلى) أشار بالكمية إلى أن الشك في العدد، فلو في الصفة كما لو شك في ثانية الظهر أنه في العصر وفي الثالثة أنه في التطوع وفي الرابعة أنه في الظهر، قالوا: يكون في الظهر، ولا عبرة بالشك، وتمامه في البحر.
(قوله: استأنف بعمل مناف إلخ) فلايخرج بمجرد النية، كذا قالوا. وظاهره أنه لا بد من العمل، فلو لم يأت بمناف وأكملها على غالب ظنه لم تبطل إلا أنها تكون نفلاً ويلزمه أداء الفرض، ولو كانت نفلاً ينبغي أن يلزمه قضاؤه وإن أكملها؛ لوجوب الاستئناف عليه، بحر، وأقره في النهر والمقدسي.
(قوله: وإن كثر شكه) بأن عرض له مرتين في عمره على ما عليه أكثرهم، أو في صلاته على ما اختاره فخر الإسلام. وفي المجتبى: وقيل: مرتين في سنة، ولعله على قول السرخسي، بحر ونهر.
(قوله: للحرج) أي في تكليفه بالعمل باليقين.
(قوله: وإلا) أي وإن لم يغلب على ظنه شيء، فلو شك أنها أولى الظهر أو ثانيته يجعلها الأولى ثم يقعد لاحتمال أنها الثانية ثم يصلي ركعة ثم يقعد لما قلنا، ثم يصلي ركعةً ويقعد لاحتمال أنها الرابعة، ثم يصلي أخرى ويقعد لما قلنا، فيأتي بأربع قعدات قعدتان مفروضتان وهما الثالثة والرابعة، وقعدتان واجبتان؛ ولو شك أنها الثانية أو الثالثة أتمها وقعد ثم صلى أخرى وقعد ثم الرابعة وقعد، وتمامه في البحر وسيذكر عن السراج أنه يسجد للسهو".

(رد المحتار2/ 92ط:سعيد)

وفي الفتاوى الهندية :

"ولو نسي أحد المسبوقين المتساويين كمية ما عليه فقضى ملاحظا للآخر بلا اقتداء به صح."

(كتاب الصلاة,الباب الخامس في الإمامة,الفصل السابع في المسبوق واللاحق,1/ 92ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101954

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں