بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتدی کے تشہد مکمل ہونے سے پہلے امام سلام پھیر دے تو مقتدی کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال

اگر امام صاحب سلام پھیر دیں اور مقتدی کا تشہد باقی ہو تو اس کےلیے کیا حکم ہے؟ سلام پھیر دے یا تشہد مکمل کرے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مقتدی کے تشہد مکمل ہونے سے پہلے امام سلام پھیر دے تو مقتدی پہلے تشہد مکمل کرے، اس کے بعد سلام پھیرے، مقتدی کے لیے تشہد چھوڑ کر سلام پھیرنا درست نہیں ہے، تاهم اگر ایسا کرلیا تو نماز کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گی۔

الفتاوى الهندية (1/ 90):

"إذا أدرك الإمام في التشهد وقام الإمام قبل أن يتم المقتدي أو سلم الإمام في آخر الصلاة قبل أن يتم المقتدي التشهد فالمختار أن يتم التشهد. كذا في الغياثية وإن لم يتم أجزأه".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 496):

" (بخلاف سلامه) أو قيامه لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد) فإنه لايتابعه بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز؛ ولو سلم والمؤتم في أدعية التشهد تابعه؛ لأنه سنة والناس عنه غافلون.
(قوله: فإنه لايتابعه إلخ) أي ولو خاف أن تفوته الركعة الثالثة مع الإمام كما صرح به في الظهيرية، وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير، فحين قعد قام إمامه أو سلم، ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحًا، ثم رأيته في الذخيرة ناقلاً عن أبي الليث: المختار عندي أنه يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه اهـ ولله الحمد ... الخ".

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144112200173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں