بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتدی کا نمازِ جنازہ میں تکبیرات بلند آواز سے کہنے کا حکم


سوال

کیا نمازِ جنازہ میں تکبیر ات مقتدی کو بھی بلند آواز سے کہنا چاہئیں ؟

جواب

واضح رہے کہ امام کے لیے نماز ِ جنازہ اور دیگر نمازوں میں لوگوں کو نماز میں داخل ہونے کی خبر دینے کے لیے بقدرِ حاجت بلند آواز سے تکبیر کہنے کی اجازت ہے ،لیکن مقتدی اور منفرد دونوں اتنی آواز سے تکبیر کہیں گے کہ خود سن سکیں،البتہ اگر امام کی آواز تمام مقتدیوں تک نہ پہنچ سکے تو پھر اس صورت میں مقتدیوں میں سے کوئی اگر لوگوں تک امام کی آواز پہنچانے کی نیت سے مکبر کی حیثیت سے بلند آواز سے تکبیرات کہے ،تو بقدرِ ضرورت بلند آواز سے تکبیرات کہنے کی اجازت ہوگی، لہذا صورتِ مسئولہ میں مقتدی کو نمازِ جنازہ میں تکبیرات آہستہ آواز سے کہنی چاہیے، نہ کہ بلند آواز سے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجهر الإمام بالتكبير) بقدر حاجته للإعلام بالدخول والانتقال. وكذا بالتسميع والسلام. وأما المؤتم والمنفرد فيسمع نفسه.

(قوله بقدر حاجته للإعلام إلخ) وإن زاد كره ط.قلت: هذا إن لم يفحش كما سيأتي بيانه إن شاء الله تعالى في آخر باب الإمامة عند قوله وقائم بقاعد، وأشار بقوله والانتقال إلى أن المراد بالتكبير هنا ما يشمل تكبير الإحرام وغيره، وبه صرح في الضياء..والزائد على قدر الحاجة كما هو مكروه للإمام يكره للمبلغ.وفي حاشية أبي السعود: واعلم أن التبليغ عند عدم الحاجة إليه بأن بلغهم صوت الإمام مكروه. وفي السيرة الحلبية: اتفق الأئمة الأربعة على أن التبليغ حينئذ بدعة منكرة أي مكروهة وأما عند الاحتياج إليه فمستحب، وما نقل عن الطحاوي: إذا بلغ القوم صوت الإمام فبلغ المؤذن فسدت صلاته لعدم الاحتياج إليه فلا وجه له إذ غايته أنه رفع صوته بما هو ذكر بصيغته. وقال الحموي: وأظن أن هذا النقل مكذوب على الطحاوي فإنه مخالف للقواعد اهـ."

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة ،واجبات الصلاة،475/1،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100975

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں