بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتدی کا امام کے پیچھے ثناء پڑھنے اور مسبوق کے لیے بقیہ قراءت کرنے کا حکم


سوال

1 ۔ایک  شخص نماز میں پہلی رکعت میں اس وقت پہنچا جب امام نے تلاوت شروع کرلی تھی،  پوچھنا یہ ہے کہ  اب یہ شخص    ثناء پڑھے گا  یا خاموش کھڑا رہے گا؟

2۔ مسبوق جس کی ایک ، دو یا تین رکعتیں نکل چکیں ہوں جب امام سلام پھیرے گا تو یہ مسبوق کھڑے ہوکر ثناء سے شروع کرے گا یا سورۃ الفاتحہ سے شروع کرے گا؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص امام کے نماز شروع کرنے کے بعد آکر جماعت کی نماز میں شامل ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع کردی ہو یعنی جہری نماز ہوتو جماعت میں شامل ہونے والا شخص ثناء نہ پڑھے،اور اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع نہیں کی، یا امام نے قراءت شروع کردی، لیکن  سری نماز ہونے کی وجہ سے بلند آواز سے نہیں، جیسا کہ ظہر اور عصر  کی نماز میں تو  بعد میں شامل ہونے والا ثناء پڑھ سکتا ہے۔

2۔ مسبوق (جس کی کوئی رکعت امام کے ساتھ ادا کرنے سے رہ گئی ہو) اپنی بقیہ نماز میں امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثناء،  پھر سورۂ فاتحہ، فاتحہ  کے بعد کوئی سورت پڑھ کر رکوع کرے گا۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لايأتي بالثناء، كذا في الخلاصة. هو الصحيح، كذا في التجنيس. وهو الأصح، هكذا في الوجيز للكردري. سواء كان قريباً أو بعيدًا أو لايسمع لصممه، هكذا في الخلاصة. فإذا قام إلى قضاء ما سبق يأتي بالثناء ويتعوذ للقراءة، كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة والظهيرية. وفي صلاة المخافتة يأتي به، هكذا في الخلاصة. ويسكت المؤتم عن الثناء إذا جهر الإمام هو الصحيح، كذا في التتارخانية في فصل ما يفعله المصلي في صلاته."

(کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس في الإمامة، الفصل السابع في المسبوق واللاحق، ج:1، ص:90،91، ط:رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويقضي أول صلاته في حق قراءة، وآخرها في حق تشهد؛ فمدرك ركعة من غير فجر يأتي بركعتين بفاتحة وسورة وتشهد بينهما، وبرابعة الرباعي بفاتحة فقط، ولايقعد قبلها."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:596، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں