مسجد کے امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، اور امام کو گالیاں دیتے ہیں ،ایسے بندوں کی نماز ہوتی ہے؟
اولا ًتو یہ واضح رہے کہ ایک عام مسلمان کو برا بھلا کہنا،گالیاں دینا شرعی اعتبار سے بہت بڑا گناہ ہے،پھر جب سامنے مسجد کا امام ہو ،اور اس کے بارے میں غلط الفاظ منہ سے نکالے جائیں ،تو گناہ کی سنگینی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے،امامت کا مرتبہ تو وہ مرتبہ ہے ،کہ جس پر انبیاء ،خلفاء راشدین،اللہ کے نیک وکار لوگ فائز تھے،ایسے مبارک منصب پر جو شخص موجود ہو،اس کے بارے میں بلا وجہ نازیبا زبان استعمال کرناگناہ ہے،لہذا جو بھی لوگ اس حرکت میں مبتلا ہیں ،ان کو چاہیے کہ فورا پہلے امام سے جاکر معافی مانگیں،جو بھی گلے شکوے ہیں ،ان کو بیٹھ کر دور کیا جائے ،اور پھر اللہ کے سامنے بھی توبہ واستغفار کرے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص جو امام کو برا بھلا کہے،اس کو گالیاں دے،تو ایسے شخص کی نماز اس امام کے پیچھے ہوجائے گی ،اعادہ کی ضرورت نہیں ۔
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"أن اسم الإمامة يتناول ما ذكرناه، فالأنبياء عليهم السلام في أعلى رتبة الإمامة، ثم الخلفاء الراشدون بعد ذلك، ثم العلماء والقضاة العدول ومن ألزم الله تعالى الاقتداء بهم، ثم الإمامة في الصلاة ونحوها."
(باب القول في بسم الله الرحمن الرحيم، ج:١، ص:٨٣، ط:دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
" ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده".
(باب احكام المرتدين، ج:٥، ص:١٣٤، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوٰی مفتی محمود میں ہے:
"س:کیافرماتےہیں علمائے دین دریں مسئلہ کہ ایک آدمی کی امام مسجد سے کافی عرصہ سے بول چال نہیں ہے،وجہ یہ ہوئی کہ دونوں میں جھگڑا صرف دنیاداری پرہے،اورباقی لوگوں نے دونوں کومنانے کی کوشش کی لیکن صلح نہیں ہوسکی،نہ امام مسجد مانتاہے ،نہ مقتدی مانتاہے،گزارش یہ ہے کہ اگرمقتدی اس امام کے پیچھےنمازپڑھ لے تونماز ہوسکتی ہے یانہیں؟
ج:شخص ِمذکور اگرامام ِمذکور کی پیچھے نمازپڑھے گاتو نمازاداہوجائےگی۔"
(باب الامامۃ، ج:2، ص:208، ط:جمعیت پبلیکیشنز)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504100805
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن