بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

لحن خفی کرنے والے امام کو لقمہ دینے کا حکم


سوال

نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کے اندر چھوٹی سی غلطی یعنی لحنِ خفی کی غلطی میں امام کو لقمہ دینے کا حکم کیا ہے ؟

جواب

علم تجوید کے اعتبار سے صفات عارضہ کی غلطی کو لحن خفی  کہا جاتا ہے ، مثلاً لام یا راء کو باریک و موٹا پڑھنے   کی صورتوں یا ادغام ، اظہاراور اخفاء کا اپنے اپنے مقام پر اہتمام  نہ کرنا وغیرہ لحن خفی کہلاتا ہے ۔ لحن خفی کی صورت میں امام کو لقمہ دینے کا حکم نہیں ہے ، اس طرح کی اغلاط سے نماز فاسد نہیں ہوتی البتہ نماز میں کراہت پیدا ہوتی ہے ۔

لہذااگرکوئی امام  لحنِ خفی کرتاہو، یعنی جس سے معنی میں فساد نہیں آتا،توایسی غلطی میں امام کو لقمہ نہیں دیناچاہیے،البتہ لحنِ خفی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرنایہ قرآن کریم کے حسن وزینت کے خلاف ہے،لحنِ خفی کے ساتھ تلاوت کرنے والے شخص کو کسی ماہر، مجود کےپاس مشق کرکے اپنی قراءت کودرست کرلینا چاہیے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومنها القراءة بالألحان إن غير المعنى وإلا لا إلا في حرف مد ولين إذا فحش وإلا لا ،بزازية.

 (قوله بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلها كما في الفتح إشباع الحركات لمراعاة النغم (قوله إن غير المعنى) كما لو قرأ - {الحمد لله رب العالمين}- وأشبع الحركات حتى أتى بواو بعد الدال وبياء بعد اللام والهاء وبألف بعد الراء، ومثله قول المبلغ رابنا لك الحامد بألف بعد الراء لأن الراب هو زوج الأم كما في الصحاح والقاموس وابن الزوجة يسمى ربيبا.

(قوله وإلا لا إلخ) أي وإن لم يغير المعنى فلا فساد إلا في حرف مد ولين إن فحش فإنه يفسد، وإن لم يغير المعنى، وحروف المد واللين وهي حروف العلة الثلاثة الألف والواو والياء إذا كانت ساكنة وقبلها حركة تجانسها، فلو لم تجانسها فهي حروف علة ولين لا مد. [تتمة]

فهم مما ذكره أن القراءة بالألحان إذا لم تغير الكلمة عن وضعها ولم يحصل بها تطويل الحروف حتى لا يصير الحرف حرفين، بل مجرد تحسين الصوت وتزيين القراءة لا يضر، بل يستحب عندنا في الصلاة وخارجها كذا في التتارخانية."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، فروع مشى المصلي مستقبل القبلة هل تفسد صلاته، ج:1، ص:630، ط:دار الفكر بيروت)

التمہید فی علم التجوید میں ہے :

"وأما ‌اللحن ‌الخفي فهو خلل يطرأ على الألفاظ فيخل بالعرف دون المعنى....واللحن الخفي هو مثل تكرير الراءات، وتطنين النونات، وتغليظ اللامات وإسمانها وتشريبها الغنة، وإظهار المخفى، وتشديد الملين، وتليين المشدد، والوقف بالحركات كوامل....وذلك غير مخل بالمعنى، ولا مقصر باللفظ، وإنما الخلل الداخل على اللفظ فساد رونقه وحسنه وطلاوته، من حيث إنه جار مجرى الرتة واللثغة....وهذا الضرب من اللحن، وهو الخفي، لا يعرفه إلا القارئ المتقن، والضابط المجود، الذي أخذ عن أفواه الأئمة، ولقن من ألفاظ أفواه العلماء الذين ترتضى تلاوتهم ويوثق بعربيتهم، فأعطى كل حرف حقه، ونزله منزلته."

(الفصل الثانی فی حد اللحن وحقیقتہ فی العرف والوضع، ص:63، ط:مکتبۃ المعارف، الریاض)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں