بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقدس اورق کو فروخت کرنے کا حکم


سوال

 میرا سوال یہ ہے  ایک شخص کباڑ  میں کتابیں اور کاپیاں بیچتا ہے ، میں نے پوچھا تم جو بیچ رہے ہوں  اس میں کچھ پر مقدس نام ہوتے ہیں،  اس نے بولا  آگے فیکٹری میں  نام مٹائے جاتے ہے،  اس طرح مسئلہ نہیں ہے،  اس کے بارے کیا حکم ہے؟ کیا اس کا  یہ طریقہ ٹھیک ہے؟اور  پیسے حلال ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  قرآن مجید  کے علاوہ باقی دینی کتب کے مقدس اوراق ، یا ایسی کتب اور  کاپیاں ان میں سے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ نکال کر  اس کو فروخت کرکے فیکٹری کے ذریعے ری سائیکلینگ کرنا جائز   ہے ، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو استعمال کرنا بھی درست ہے، تاہم اس میں ادب کی رعایت رکھنا ضروری ہے ،البتہ   قرآنِ مجید کے بوسیدہ اوراق یا طباعت کے بعد بچ جانے والے اضافی صفحات  کی ری سائیکلنگ کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ری سائیکلنگ میں ان اوراق کو  پانی میں ڈال کو خوب گھمایا جاتا ہے ،الٹ پلٹ اور ہیر پھیر کے بعد یہ مالیدہ اور برادہ بن کر  دوبارہ کاغذ کی شکل میں ڈھلتا ہے (اس عمل کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے) اور قرآنِ کریم کی اس طرح ری سائیکلنگ کرنے میں اس کی بے ادبی اور بے توقیری لازم آتی ہے، اس لیے قرآنِ کریم کے اوراق کی ری سائیکلنگ کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید کے مقدس اوراق   سے متعلق حکم یہ ہے کہ انہیں پاک کپڑے میں لپیٹ کر گڑھا کھود کر ایسی جگہ دفن کیا جائے جو قدموں سے روندی نہ جاتی ہو  یا انہیں کسی تھیلے وغیرہ میں ڈال کر ان کے ساتھ وزن باندھ کر سمندر یا دریا برد کردیا جائے یا کسی ویران جگہ ڈال دیا جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء..في الأشباه لكن عبارة المجتبى والدفن أحسن كما في الأنبياء والأولياء إذا ماتوا، وكذا جميع الكتب إذا بليت وخرجت عن الانتفاع بها اهـ. يعني أن الدفن ليس فيه إخلال بالتعظيم، لأن أفضل الناس يدفنون. وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقا وتعذر القراءة منه لا يحرق بالنار إليه أشار محمد وبه نأخذ، ولا يكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة، ويلحد له لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل اهـ."

(كتاب الحظر والإباحة،  فرع، ج:6، ص:422، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"ومحو بعض الكتابة بالريق يجوز، وقد ورد النهي في محو اسم الله بالبزاق، وعنه عليه الصلاة والسلام: «القرآن أحب إلى الله تعالى من السماوات والأرض ومن فيهن...(قوله: ومحو بعض الكتابة) ظاهره ولو قرآنا، وقيد بالبعض لإخراج اسم الله تعالى ط.  (قوله: وقد ورد النهي إلخ) فهو مكروه تحريما؛ وأما لعقه بلسانه وابتلاعه فالظاهر جوازه ط. (قوله: ومن فيهن) ظاهره يعم النبي صلى الله عليه وسلم، والمسألة ذات خلاف والأحوط الوقف، وعبر بمن الموضوعة للعاقل؛ لأن غيره تبع له، ولعل ذكر هذا الحديث للإشارة إلى أن القرآن يلحق باسم الله تعالى في النهي عن محوه بالبزاق، فيخص قوله ومحو بعض الكتابة إلخ بغير القرآن أيضا، فليتأمل ."

(كتاب الطهارة، سنن الغسل،  ج:1، ص:178، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو محا لوحا كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز، وقد ورد النهي عن محو اسم الله تعالى بالبزاق، كذا في الغرائب.ومحو بعض الكتابة بالريق يجوز، كذا في القنية."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، ج:5، ص:322، ط:دار الفكر)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي مسائل الملتقط:ورسائل تستغنى عنهاوفيها اسم الله تعالى يمحى، ثم يلقى في الماءالكثير، واتخذ منه قراطيس كان أفضل."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة  وغيرها، ج:18 ،ص:69، ط:مكتبة زكريا بديوبند)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں