بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مقدر میں رزق لکھا ہے تو محنت کیوں کریں؟


سوال

میں  اسٹودنٹ ہوں ، تبلیغ میں بھی وقت لگاتا ہوں، ذہن میں اکثر یہ آتا ہے کہ روزی جتنی ملنی ہے وہ تو ملے گی، اس لیے پڑھائی پر فوکس نہیں کرتا، تو کیا یہ ٹھیک ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ  کائنات اور کائنات کی ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے، اور کائنات کی تخلیق سے پہلے ہر چیز کا علمِ الٰہی میں ایک اندازہ تھا، اسی کے مطابق تمام چیزیں وجود میں آتی ہیں، لیکن انسان مجبورِ محض نہیں ہے، بلکہ   اللہ تعالیٰ نے انسان کو جزوی اختیار دیا ہے،   ہر انسان  دنیا میں آنے کے بعد اپنے جزوی اختیار سے کیا کرے گا، کیا نہیں کرے گا، وہ اللہ تعالیٰ  کو پہلے سے ہی معلوم ہے، اسی کو ”تقدیر “  کہتے ہیں۔ 

نیز دنیا دارالاسباب ہے،  اور انسان اسباب اختیار کرنے کا مکلّف ہے، لہذا دنیا میں رزق کے حصول کے لیے جائز اسباب اختیار کرنے کا حکم ہے، اسی وجہ سے حدیث مبارکہ میں  حلال رزق  کے حاصل کرنے کو فرائض کے بعد فرض کہا گیا ہے، اور  رزق کے حصول کے اسباب اور تدبیر اختیار کرنے کے بعد جو کچھ رزق ملے گا وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے ہی سے ہے، اس کو ”تقدیر“ میں رزق لکھا ہونا کہتے ہیں۔

لہذا  سائل کو چاہیے کہ وہ تعلیم پر بھی توجہ دے  اور  حلال رزق کے حصول کے جائز ذرائع  اور تدابیر بھی اختیار کرے، پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرے، اور  تقدیر کے فیصلہ پر راضی رہے۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طلب ‌كسب ‌الحلال فريضة بعد الفريضة» . رواه البيهقي في شعب الإيمان."

(2/ 847، کتاب البیوع،باب الكسب وطلب الحلال،ط: المكتب الإسلامي)

عمدۃ القاری میں ہے:

"(كل ميسر له خلق له) وقد جاء بهذا اللفظ عن جماعة من الصحابة. منها: ما رواه أحمد بإسناد حسن بلفظ: كل امرىء مهيأ لما خلق له. قوله: (أو لما يسر له) شك من الراوي أي: كل يعمل لما يسر له، بضم الياء آخر الحروف وتشديد السين المكسورة وفتح الراء، هذا هكذا ورواية الكشميهني، وفي رواية غيره: لما ييسر له، بضم الياء الأولى وفتح الثانية وتشديد السين، وحاصل معنى هذا، أن العبد لا يدري ما أمره في المآل لأنه يعمل ما سبق في يعلمه تعالى، فعليه أن يجتهد في عمل ما أمر به فإن عمله إمارة إلى ما يؤول إليه أمره."

 (23 / 148، باب الله أعلم بما كانوا عاملين، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں