بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقرر شدہ مہر میں کمی یا بیشی کرنا


سوال

میں نے اپنی شادی پر حقِ مہر 50000 مقرر کیا تھا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی،  کیا اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے؟ کیوں کہ مجھے حق مہر زیادہ محسوس ہو رہا ہے اور اللہ سے ڈر لگ رہا ہے!

جواب

واضح رہے کہ مہر طے کرتے وقت ضروری ہے کہ جانبین کی حالت کی رعایت رکھتے ہوئے درمیانہ مہر مقرر کیا جائے، چوں کہ اس میں بیوی کی عزت افزائی کا پہلو بھی ملحوظ  ہے؛ اس لیے مہر اتنا کم نہیں ہونا چاہیے کہ اعزاز کا پہلو ہی ختم ہوجائے، اور چوں کہ مہر کی ادائیگی شوہر پر واجب ہوتی ہے اس لیے اتنا زیادہ مہر بھی نہیں ہونا چاہیے کہ شوہر پر اس کی ادائیگی بوجھ ہو اور وہ مرتے دم تک اسے ادا ہی نہ کرسکے۔ شریعت میں بہت زیادہ مہر مقرر کرنا پسندیدہ نہیں ہے، البتہ اگر شوہر آسودہ حال ہے اور جانبین باہمی رضامندی سے زیادہ مہر مقرر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے، شوہر پر وہی طے شدہ مہر دینا لازم ہوگا۔

چوں کہ مہر بیوی کا شرعی حق ہے، نکاح کے وقت مہر طے ہوجانے کے بعد بیوی اگر چاہے تو مہر میں کمی کرسکتی ہے اور چاہے تو پورا مہر معاف بھی کرسکتی ہے، لیکن باہمی رضامندی سے مہر طے ہوجانے کے بعد مرد کے لیے بیوی سے مہر کم کروانے یا معاف کروانے کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، شوہر پر طے شدہ مہر ہی دینا لازم ہے۔ البتہ شوہر اپنی خوشی سے طے شدہ مہر میں بیشی (زیادتی) کرنا چاہے اور بیوی کو طے شدہ مہر سے زیادہ دینا چاہے تو وہ دے سکتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل پر طے شدہ مہر (پچاس ہزار روپے) ہی دینا لازم ہے، طے شدہ مہر میں کمی کرنے کا حق سائل کو نہیں ہے۔ اور مہر کی یہ مقدار بہت زیادہ کے حکم میں نہیں ہے، لہٰذا سائل کو ڈرنے یا فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ خوشی خوشی شریعت کا حق سمجھتے ہوئے مہر ادا کرنا چاہیے۔

{وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا} [النساء:20]

ترجمہ: اور تم اس ایک کو (مہر میں یا ویسے ہی بطور ہبہ کے) انبار کا انبار مال دے چکے ہو (خواہ ہاتھ میں یا خاص مہر صرف معاہدہ میں دینا کیا ہو) تو تم اس (دیے ہوئے یا معاہدہ کیے ہوئے) میں سے (عورت کو تنگ کرکے) کچھ (واپس) مت لو (اور معاف کرانا بھی حکماً واپس لینا ہے)۔

(بیان القرآن، ج:2، ص:104، ط : میر محمد)

مشكاة المصابيح (ج:2، ص:958، ط : المكتب الإسلامي - بيروت):

"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لاتغالوا صدقة النساء؛ فإنها لو كانت مكرمةً في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئًا من نسائه ولا أنكح شيئًا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقيةً. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي."

ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا کہ: خبردار! عورتوں کا مہر (مقرر کرنے) میں غلو (بہت زیادتی) مت کیا کرو، اگر یہ (بہت زیادہ مہر مقرر کرنا) دنیا میں عزت کا باعث اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقویٰ کی بات ہوتی تو اس بات (یعنی بہت زیادہ مہر مقرر کرنے) کے تم سے زیادہ حق دار اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہوتے، (لیکن) میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بارہ اوقیہ سے زیادہ پر اپنی کسی زوجہ سے نکاح کیا ہو یا (بارہ اوقیہ سے زیادہ پر) اپنی کسی بیٹی کا نکاح کروایا ہو۔

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:313، ط : دار الفكر):

"وإن حطت عن مهرها صح الحط، كذا في الهداية. ولا بد في صحة حطها من الرضا حتى لو كانت مكرهة لم يصح ومن أن تكون مريضة مرض الموت هكذا في البحر الرائق."

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144201200131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں