بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقررہ تاریخ تک فیس کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں فیس کی مد میں اضافہ کرنا


سوال

ہمارے ادارے (اقراء جنت الاطفال تلہ گنگ کیمپس) میں عرصہ دراز سے فیس کا مسئلہ ہے،دو،تین ماہ تک فیس موصول نہیں ہوتی جس  کی وجہ سے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اسی فیس سے ادارہ ہذا۱۔اساتذہ کو تنخواہ دیتا ہے۲۔بلڈنگ کا کرایہ ادا کرتا ہے ۳۔بجلی وگیس وٹیلی فون وغیرہ کے بل ادا کرتا ہے۴۔ان  کے علاوہ بھی ادارے کے جواخراجات ہوں وہ ادا کرتاہے ۔

کیا مقررہ تاریخ کے بعد ادارہ فیس کی مد میں اضافہ کرسکتا ہے ؟ اور اس اضافہ شدہ رقم کو ادارہ ہذا مندر جہ ذیل  مصارف میں استعمال کرسکتا ہے؟۱۔ادارہ کے اخراجات کی مد میں ۲۔ادارہ کے بل وغیرہ کی ادائیگی میں ۳۔طلباء پر خرچ   ۔ 

اگر مذکورہ مصارف میں استعمال کرنا  جائز نہیں ہے تو جائز  مصارف کیا ہوسکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مقر رہ تاریخ پر فیس کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ ادارے کا فیس کی مد میں اضافہ کرنا تعزیر بالمال(مالی جرمانہ ) کے زمرے میں آتا ہے  اور تعزیر بالمال شرعاً ناجائز ہے،  لہذا مذکورہ اضافہ شدہ رقم لینا اور اسےادارے کے مصارف میں استعمال کرنا جائز نہیں، اگر جرمانہ کے طور پر زائد رقم لی ہے تو  وہ رقم اصل مالکان کو واپس کرنا ضروری ہے،البتہ اگر فیس کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ادارے والوں کا تنبیہ  کرنا مقصود ہے تو اس کی جائز صورت یہ ہے  کہ کچھ مدّت تک  یہ اضافی  رقم  روک لی جائے  اور تنبیہ کے بعد واپس کردی جائے ۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

عن أبي حرّة الرُقاشيّ عن عمه قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم: ألا تظلموا ألا لا يحلّ مال امرئ إلاّ ‌بطيب نفس منه 

(مشکوۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ، رقم الحدیث:۲۹۴۶،ج:۲،ص:۸۸۹،ط:المکتب الاسلامی)

الدر مع الرد میں ہے:

 (ويكون به و) بالحبس و (بالصفع) على العنق .... (لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى. وفي الرد: (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز.  ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف ...... (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن ‌معنى ‌التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي. وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال .

(الدر مع الرد، کتاب الحدود، باب التعزیر ، ج:۴،ص:۶۱۔۶۲،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں