آج میں ایک ہوٹل میں تھا، ایک انگریزی اخبار کا ٹکڑا جو انہوں نے روٹی کے نیچے رکھا تھا، اس کے ایک سائیڈ پر انگریزی زبان میں قرآن پاک کی سورۂ مائدہ کی کچھ آیات کا ترجمہ لکھا ہوا تھا، میں نے احترام کی نیت سے وہ حصہ کاٹ کرکے ہوٹل والے کو دیا کہ اس کو جلادو، صرف اس نیت سے کہ اس کی بے حرمتی نہ ہو جائے تو ایک دوسرا بندہ وہاں کھڑا تھا، اس نے کہا کہ آپ لوگوں نے غلط کام کیا ہے، اس کو جلانا نہیں چاہیے تھا، اس کے بعد سے پریشانی ہوگئی کہ شاید مجھ سے غلطی ہوگئی اور میں نے غلط کیا اور وہ صرفِ قرآن مقدس کا ترجمہ تھا اور میری نیت بھی یہی تھی کہ اس کی بے حرمتی نہ ہو جائے، باقی نعوذ باللہ اور کچھ نہیں تھا، راہ نمائی فرمادیں!
مقدس اوراق سے متعلق حکم یہ ہے کہ اُن کو کسی محفوظ مقام پر پاک کپڑے میں ڈال کر دفن کردیا جائے، یہی بہتر اور مذکورہ اشیاء کی توہین سے حفاظت کرنے کا احسن طریق ہے۔ (اگر عام آدمی کے لیے یہ مشکل ہو تو وہ جن مقامات پر مقدس اوراق کے ڈبے رکھے ہوتے ہیں، ان ڈبوں میں ان کو رکھ دے۔)
اس کے علاوہ مقدس اوراق اگر دُھل سکتے ہوں تو حروف کو دھو کر ان کا پانی کسی کنویں یا ٹینکی یا کسی ایسی جگہ بہا دیں جہاں کسی قسم کی نجاست نہ پہنچے۔
اسی طرح مقدس اوراق کو کسی تھیلی میں ڈال کر اس میں پتھر وغیرہ ڈال کر دریا یا سمندر یا کنویں میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔
اسی طرح وہ تمام اشیاء جن پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقدس نام ہوں، یا قرآنی آیات ہو تو ان اشیاء سے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے مقدس ناموں اور آیتوں کو مٹا یاجائے، پھر ان کو کسی بھی دنیاوی کام کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
باقی آگ سے جلانے میں فتنہ اور بے ادبی کا اندیشہ ہے، اس لیے اس سے احتراز کرنا چاہیے، اگر غلطی سے کرلیا ہو تو آخرت میں اس کی پکڑ نہیں ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
’’عن ابن عباس أن رسول اللّٰه صلي الله عليه وسلم قال: إن اللّٰه تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرهوا علیه‘‘.
(رواہ ابن ماجہ، والبیہقی، باب ثواب ہذہ الامۃ، مشکوۃ، ص:۵۸۴،ط:قدیمی)
ترجمہ:’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطا اورنسیان کو معاف کردیا ہے اور اس گناہ سے بھی معافی عطا فرمادی ہے جس میں زبردستی مبتلا کیا گیا ہو۔‘‘
(مظاہر حق جدید، ج:۴،۵، ص:۸۵۹،ط:دار الاشاعت)
’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں ہے:
’’الخطأ والمعنی: أنه عفا عن الإثم المترتب علیه بالنسبة إلی سائر الأمة‘‘.
(مرقاۃ المفاتیح،ج:۱،ص:۴۷۱،ط: إمدادیه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144203200053
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن