بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مقدس کلمات پر مشتمل کتب تلف کرنے کی صورت


سوال

ہمارے گھر بہت سی کتابوں کا ڈھیر ہے جنہیں ہم نے اس  لیے سنبھال رکھا ہے کہ ان پر اللہ کا نام لکھا ہوتا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک،  اب تعداد بہت بڑھ چکی ہیں ۔ کیا ہم ان کتابوں کو جلا سکتے ہیں؟ یا ایسی کتابوں کو ہم کہاں رکھیں  جہاں اللہ کے نام کی بے حرمتی نہ ہو؟  ہمارے گھر سے قریب کوئی جاری پانی بھی موجود نہیں۔

جواب

ایسی کتابوں کو تلف کرنے کی بہتر صورت یہ ہے کہ ایسی جگہ گڑھا کھود کر دفن کردیا جائے جو قدموں سے روندی نہ جاتی ہو، یا انہیں سمندر یا دریا میں بہادیا جائے یا کسی ویران جگہ ڈال دیا جائے۔ اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی ممکن نہ ہو تو آخری درجہ یہ ہے کہ ایسی کتابوں سے قرآنی آیات اور کلمہ طیبہ اور مقدس کلمات( اللہ کا نام وغیرہ) کو مٹاکر ،  کاغذ کو آگ میں جلاکر خاکستر کردیا جائے اور راکھ کو پانی میں ملا کر کسی پاک جگہ مثلاً   کیاری وغیرہ یا ایسی جگہ جہاں پاؤں نہ پڑتے ہوں بہادیا جائے،  لیکن چوں کہ قرآنی آیات والے اوراق کو جلانے میں شدید فتنے کا خطرہ  اور ایک گونہ بے ادبی ہے؛ لہذا جلانے سے اجتناب کیا جائے۔

موجودہ دور میں مقدس اوراق تلف کرنے والے بعض ادارے کام کررہے ہیں، سائل ان کے ذریعے بھی دفن کروانے یا سمندر برد کروانے کی ترتیب بناسکتاہے۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار(6 / 422):

"الكتب التي لاينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي، ولا بأس بأن تلقى في ماء جار، كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء".

 

حاشية رد المحتار على الدر المختار (6/422):

 

"لكن عبارة المجتبى: والدفن أحسن كما في الأنبياء والأولياء إذا ماتوا، وكذا جميع الكتب إذا بليت وخرجت معنى الانتفاع بها اهـ يعني أن الدفن ليس فيه إخلال بالتعظيم؛ لأن أفضل الناس يدفنون

 

 وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراءة منه لايحرق بالنار، إليه أشار محمد، وبه نأخذ. ولايكره دفنه. وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة ويلحد له؛ لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إليه يد محدث ولا غبار ولا قذر تعظيماً لكلام الله عز وجل‘‘. 

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144201200566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں