بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقدس کلمات پر مشتمل اخبارات کے ساتھ کیا کیا جائے؟


سوال

ہمارے دفتر پر روزانہ سندھی اخبار آتا  ہے جس میں اسلامی نام ہوتے ہیں،  اب اخبارات روزانہ کی بنیاد پر آنے کی وجہ سے اخبارات کثیر تعداد میں جمع ہوگئے ہیں، اب ہم وہ پھینک بھی نہیں سکتے، تو اس کے لیے شریعت میں اخبارات جلانے کی گنجائش موجود ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ مقدس اوراق سے متعلق حکم یہ ہے کہ انہیں پاک کپڑے میں لپیٹ کر گڑھا کھود کر ایسی جگہ دفن کیا جائے جو قدموں سے روندی نہ جاتی ہو،  یا انہیں کسی تھیلے وغیرہ میں ڈال کر ان کے ساتھ وزن باندھ کر سمندر یا دریا برد کردیا جائے، یا کسی ویران جگہ (کنویں وغیرہ میں) ڈال دیا جائے۔ 

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ مقدس کلمات پر مشتمل اخبارات کو یا تو مذکورہ طریقہ کار کے مطابق دفنانے، دریا برد کرنے، یا کسی ویران جگہ ڈالنے کا اہتمام کرے، یا خود نہ کرسکتا ہو تو کسی ایسے معتمد ادارے کے حوالے کردے جو مذکورہ طریقہ کار پر عمل درآمد کرتا ہو۔

فتاویٰ  شامی میں ہے:

"والدفن أحسن كما في الأنبياء والأولياء إذا ماتوا، وكذا جميع الكتب إذا بليت وخرجت عن الانتفاع بها اهـ. يعني أن الدفن ليس فيه إخلال بالتعظيم، لأن أفضل الناس يدفنون. وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقا وتعذر القراءة منه لا يحرق بالنار إليه أشار محمد وبه نأخذ، ولا يكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة، ويلحد له لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل اهـ."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع، ٦/ ٤٢٢، ط: سعید)

فتاویٰ  عالمگیریہ  میں ہے:

"المصحف إذا صار خلقا لا يقرأ منه ويخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن، ودفنه أولى من وضعه موضعا يخاف أن يقع عليه النجاسة أو نحو ذلك ويلحد له؛ لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضا، كذا في الغرائب.

المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار، أشار الشيباني إلى هذا في السير الكبير وبه نأخذ، كذا في الذخيرة."

(كتاب الكراهية،الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، ٥/ ٣٢٣، ط: ماجدیة)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"مقدس اوراق کو بہتر یہ ہے کہ دریا میں یا کسی غیر آباد کنویں میں ڈال دیا جائے، یا زمین میں دفن کر دیا جائے، اور بصورتِ مجبوری ان کو جلا کر خاکستر (راکھ) میں پانی ملا کر کسی پاک جگہ جہاں پاؤں نہ پڑتے ہوں، ڈال دیا جائے، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔"

(قرآن کریم کی عظمت اور اس کی تلاوت، ٤/ ٤٤٣، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں