بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقدس کاغذ کا کیا کیا جائے؟


سوال

کیا میں وہ کاغذ جس پر کوئی مقدس نام یا کوئی قرآنی آیت لکھی ہوئی ہو، اس کو پھاڑ سکتا ہوں ،تا کہ اس کی بے حرمتی نہ ہو؟ نیزاگر میں اسے پانی میں ڈالوں، تو اس پانی اور کاغذ کا بعد میں کیا کروں، کیا میں انہیں بیچ سکتاہوں، یا کوڑے میں ڈال سکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ جس کاغذ پر کوئی آیت یا اللہ کا نام یا کوئی اور مقدس قابلِ تعظیم تحریرہو، اور وہ بوسیدہ ہوکر قابلِ استعمال نہ رہے، تو بے حرمتی سے بچانے کی خاطر اس کے لیےکسی ایسی جگہ جہاں لوگوں کا گزر بسرنہ ہوتاہو، قبر نماگڑھا بناکر،دفن کرلینا چاہیے، اور اگر کوئی ایسی جگہ باآسانی میسر نہ ہو، یامقدسات بہت زیادہ ہوں ،اور یہ صورت اختیار کرنی مشکل ہو،توکسی وزنی چیز کے ساتھ اسےباندھ کرسمندر یاجاری پانی میں  ڈال دیےجائے، یا پانی ،کیمیکل وغیرہ سے اس کاغذسے قابلِ تعظیم تحریر مٹائی جائے، اور پانی کو کسی پاک صاف جگہ پر بہادیاجائے، اور کاغذکو بہتر یہ ہے کہ کسی مقدس تحریر میں استعمال کیاجائے؛ لہذاصورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ مقدسات کی تعظیم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، مذکورہ صورتیں اختیار کریں، مقدسات کو پھاڑنےیادھونے کی صورت میں اس کےبقایا جات یا  پانی کو ناپاک جگہ میں گرانے  سے گریز کریں۔

الدر مع الرد میں ہے:

"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء. (قوله الكتب إلخ) هذه المسائل من هنا إلى النظم كلها مأخوذة من المجتبى كما يأتي العزو إليه (قوله كما في الأنبياء) كذا في غالب النسخ وفي بعضها كما في الأشباه لكن عبارة المجتبى والدفن أحسن كما في الأنبياء والأولياء إذا ماتوا، وكذا جميع الكتب إذا بليت وخرجت عن الانتفاع بها اهـ. يعني أن الدفن ليس فيه إخلال بالتعظيم، لأن أفضل الناس يدفنون. وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقا وتعذر القراءة منه لا يحرق بالنار إليه أشار محمد وبه نأخذ، ولا يكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة، ويلحد له لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل اهـ."

(كتاب الحظر والإباحة، ٤٢٢/٦، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو ‌محا ‌لوحا ‌كتب ‌فيه ‌القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز، وقد ورد النهي عن محو اسم الله تعالى بالبزاق، كذا في الغرائب."

(كتاب الكراهية، ٣٢٢/٥، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں