کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ" مدرسہ رحیمیہ تعلیم القرآن" کے نام سے بنے مونوگرام اگر کپڑے پر چسپاں ہوں، تو بیت الخلاء جانا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ اگر کپڑوں پر کوئی ایسا مونوگرام چسپاں ہو جس پر اللہ تعالی کا نام ،اسماء الحسنیٰ میں سے کوئی نام ، کسی نبی ، فرشتہ یا قرآن کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو ،تو ایسے کپڑوں کو پہن کر بیت الخلا ءمیں جانا درست نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں اللہ تعالی اور اسماء مقدسہ کے نام کی بے ادبی ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کپڑے جس پر "مدرسہ رحیمیہ تعلیم القرآن" کا مونوگرام چسپاں ہو ، اگر یہ مونوگرام اردو یا عربی رسم الخط میں ہو تواس کو بیت الخلاء میں پہن کر جانا درست نہیں، ادارے اور اسکول کے منتظمین پر لازم ہے کہ ایسے مونو گرام (جس پر اللہ تعالی کا نام لکھا ہوا ہے) کو ختم کرکے اللہ تعالی کے نام کے بغیر کا مونوگرام بنائیں، اگر ادارہ کے منتظمین ایسا نہیں کریں تو وہ گناہ گار ہوں گے، البتہ اگر مونوگرام تبدیل کرنے میں دشواری ہو ،تو ایسی صورت میں اس کاحل یہ ہے کہ مونو گرام کو وردی کے ساتھ نہ سیا جائے، بلکہ مونوگرام کا الگ سے بیج (badge) بنایا جائے جو بیت الخلا میں جاتے وقت الگ کیا جائے،تاکہ اللہ تعالی کے نام کی بےادبی نہ ہو اور اگر طالب علم یا ملازم کے لیے کپڑوں پر تبدیلی کرنا خود ممکن نہ ہو تو بیت الخلا جانے سے پہلےمونو گرام کو کسی طریقہ سے مکمل طور پر چھپا لے۔
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
"ويكره الدخول للخلاء ومعه شيء مكتوب فيه اسم الله أو قرآن" لما روى أبو داود والترمذي عن أنس قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء نزع خاتمه أي لأن نقشه محمد رسول الله قال الطيبي فيه دليل على وجوب تنحية المستنجي اسم الله تعالى واسم رسوله والقرآن اهـ وقال الأبهري وكذا سائر الرسل اهـ وقال ابن حجر استفيد منه أنه يندب لمريد التبرز أن ينحى كل ما عليه معظم من اسم الله تعالى أو نبي أو ملك فإن خالف كره لترك التعظيم اهـ وهو الموافق لمذهبنا."
(كتاب الطهارة، ص:54،ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"فلو نقش اسمه تعالى أو اسم نبيه صلى الله عليه وسلم استحب أن يجعل الفص في كمه إذا دخل الخلاء."
(كتاب الحظر والإباحة،فصل في اللبس،ج:6،ص:361،ط:سعيد)
الفقه الإسلامي وأدلته للشیخ وهبة الزحیلي میں ہے:
"ألا يحمل مكتوباً ذكر اسم الله عليه، أو كل اسم معظم كالملائكة، والعزيز والكريم ومحمد وأحمد؛ لما روى أنس: «أن النبي صلّى الله عليه وسلم كان إذا دخل الخلاء وضع خاتمه» وكان فيه: محمد رسول الله. فإن احتفظ به، واحترز عليه من السقوط فلا بأس."
(الباب الأول: الطہارات، آداب قضاء الحاجة،ج:1،ص:355،ط:دار الفكر)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"بساط أو مصلى كتب عليه الملك لله يكره بسطه والقعود عليه واستعماله، وعلى هذا قالوا: لا يجوز أن يتخذ قطعة بياض مكتوب عليه اسم الله تعالى علامة فيما بين الأوراق لما فيه من الابتذال باسم الله تعالى، ولو قطع الحرف من الحرف أو خيط على بعض الحروف في البساط أو المصلى حتى لم تبق الكلمة متصلة لم تسقط الكراهة، وكذلك لو كان عليهما الملك لا غير، وكذلك الألف وحدها واللام وحدها، كذا في الكبرى.إذا كتب اسم فرعون أو كتب أبو جهل على غرض يكره أن يرموا إليه؛ لأن لتلك الحروف حرمة."
(كتاب الكراهية،ج:5،ص:323،ط:رشيديه)
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:
"فقال الحنفية والشافعية: يجوز أن ينقش لفظ الجلالة أو ألفاظ الذكر على الخاتم، ولكنه يجعله في كمه إن دخل الخلاء، وفي يمينه إذا استنجى."
(تختم،سابعا: النقش على الخاتم،ج:11،ص:29،ط:إدارة الأوقاف والشئون الإسلامية الكويت)
آپ کے مسائل اور ان کے حل میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے:
"انگوٹھی پر آیت یا قرآنی کلمات کندہ ہوں تو ان کو بیت الخلاء میں لے جانا مکروہ ہے،اتار کر جانا چاہئے۔"
(قرآنِ کریم کی عظمت اور اس کی تلاوت،ج:4،ص:442،ط:مکتبہ لدھیانوی)
وفیہ ایضاً:
"مونوگرام پر قرآنی آیات لکھنا ، جب کہ ان کی بے ادبی کا اندیشہ غالب ہے، صحیح نہیں، جو ادارہ بھی اس بے ادبی کا مرتکب ہوگا، وبال اسی کے ذمہ ہے۔"
(قرآن کریم کی عظمت اور اس کی تلاوت،ج:4،ص:493،ط:مکتبہ لدھیانوی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401101412
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن