گندگی میں قرآن پاک کی آیات پڑی ہو،اور اسے اٹھاکر دھونا کیسا ہے ؟
واضح رہے کہ قرآن کے مقدس بوسیدہ اوراق کواَدب سے رکھنا اور بے ادبی سے بچانا واجب ہے، بصورتِ مسئولہ احسن طریق یہ ہےکہ مقدس اوراق کودھو کر اس کے پانی کو کسی دریا یا سمندر یا کسی کھیت وغیرہ میں ڈال دیا جائے۔
باقی مقدس اَوراق کا حکم یہ ہے :
1۔ اُن کو کسی محفوظ مقام پر پاک کپڑے میں ڈال کر دفن کردیا جائے، یہی بہتر اور مذکورہ اشیاء کی توہین سے حفاظت کرنے کا احسن طریق ہے۔ (اگر عام آدمی کے لیے یہ مشکل ہو تو وہ جن مقامات پر مقدس اَوراق کے ڈبے رکھے ہوتے ہیں، ان ڈبوں میں ان کو رکھ دے۔)
2۔ مقدس اَوراق اگر دُھل سکتے ہوں تو حروف کو دھو کر ان کا پانی کسی کنویں یا ٹینکی یا کسی ایسی جگہ بہا دیں جہاں کسی قسم کی نجاست نہ پہنچے۔
3۔ مقدس اَوراق کو کسی تھیلی میں ڈال کر اس میں وزنی پتھر وغیرہ ڈال کر دریا یا سمندر یا کنویں میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔
4۔ وہ تمام اَشیاء جن پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقدس نام ہوں، یا قرآنی آیات ہوں، ان اشیاء سے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے مقدس ناموں اور آیتوں کو مٹا یاجائے، پھر ان کو کسی بھی دنیاوی کام کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"الکتب التی لاینتفع بہا یمحی فیہا اسم اللّٰہ وملائکتہ ورسلہ ویحرق الباقی ولابأس بأن تلقی فی ماء جار کما ہی أوتدفن وہو أحسن کما فی الأنبیاء ۔۔۔۔۔ وکذا جمیع الکتب إذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بہا، یعنی أن الدفن لیس فیہ إخلال بالتعظیم لأن أفضل الناس یدفنون۔ وفی الذخیرۃ: المصحف إذا صار خلقا وتعذر القراء ۃ منہ لایحرق بالنار ، إلیہ أشار محمدؒ وبہٖ نأخذ ولایکرہ دفنہٗ، وینبغی أن یلف بخرقۃ طاہرۃ ویلحد لہٗ لأنہٗ لو شق ودفن یحتاج إلی إہالۃ التراب علیہ وفی ذٰلک نوع تحقیر إلا إذا جعل فوقہٗ سقف وإن شاء غسلہٗ بالماء أو وضعہٗ فی موضع ظاہر لاتصل إلیہ ید محدث ولاغبار ولاقذر تعظیماً لکلام اللّٰہ عز وجل."
(کتاب الحظر والاباحة،ج:۶،ص:۴۲۲،ط:سعید)
’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ میں ہے:
’’ویکرہ أن یجعل شیئاً فی کاغذ فیہا اسم اللّٰہ تعالٰی کانت الکتابۃ علی ظاہرہا أو باطنہا."
( الباب الخامس في آداب المسجد، و ما كتب فيه شيئ من القرآن، أو كتب فيه اسم الله تعالى،ج:۵،ص:۳۲۲،ط:ماجدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406101594
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن